وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے کنبہ کے قریبی رشتہ داروں [١٢٧] کو (برے انجام سے) ڈرائیے
[١٢٧]قریش کو آپ کی پہلی دعوت:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تین سال تک آپ انتہائی خفیہ طریقہ پر دارارقم میں فریضہ تبلیغ سرانجام دیتے رہے۔ بعد میں یہ حکم نازل ہوا کہ آپ اب اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی کھل کر شرک سے بچنے کی دعوت دیجئے اور اس شرک کے انجام سے انھیں ڈرائیے۔ اس آیت پر آپ نے جس طرح عمل فرمایا وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور آواز دینے لگے : اے فہر کی اولاد، اے عدی کی اولاد، فرض قریش کے سب خاندان کو پکارا۔ وہ جمع ہوگئے جو کوئی خود نہ آسکا اس نے اپنی طرف سے ایک آدمی بھیج دیا تاکہ یہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے۔ ابو لہب خود آیا اور قریش کے دوسرے لوگ بھی آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اگر میں تم سے کہوں کہ اس وادی کے اس طرح کچھ سوار تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہیں تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’بے شک! کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ ہی بولتے دیکھا ہے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ جو( قیامت کو ) تمہیں پیش آنے والا ہے‘‘ اس پر ابو لہب کہنے لگا : ’’تم پر بقیہ سارا دن ہلاکت ہو کیا تم نے اسی بات کے لئے ہمیں اکٹھا کیا تھا ؟‘‘ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی: ( تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۔۔۔۔(بخاری ۔کتاب تفسیر ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر فرمانے لگے : ’’اے قریش کے لوگو!(یا کچھ ایسا ہی کلمہ کہا) تم اپنی اپنی جانیں بچا لو۔ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنو عبدمناف! میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے میری پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے میں تیرے کسی کام نہ آسکوں گا‘‘( حوالہ ایضاً )