وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ
اور اس قرآن کو شیطان تو لے کر نہیں [١٢٣] اترے۔
[١٢٣] کفار کا آپ پر الزام کہانت:۔ اس آیت کا تعلق سابقہ آیت وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے ہے درمیان میں قرآن کو جھٹلانے والوں کے کچھ احوال بیان کرنے کے بعد اصل مضمون کی طرف رجوع کیا گیا ہے کفار مکہ کے الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ آپ کو کاہن کہتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے۔ چنانچہ جندب بن سفیان فرماتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج ناساز ہوا اور آپ دو تین رات نماز تہجد کے لئے اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن، ابو لہب کی بیوی) آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی’’ محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سمجھتی ہوں۔ تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ دو تین راتوں سے تیرے پاس نہیں آیا‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔﴿ وَالضُّحَىٰ وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والضحیٰ)