زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت، جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ (عمدہ قسم کے) گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ دنیوی [١٥] زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ ہی کے پاس ہے
[١٥] دنیا کےحصول میں بھی فکر آخرت ہی اصل کامیابی ہے:۔ اس آیت میں جن جن اشیاء کا نام لیا گیا ہے۔ ان کی محبت انسان کے دل میں فطری طور پر جاگزیں ہے اور انہی چیزوں سے انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہوتی ہے اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں فیل ہی ہوتی رہی ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بذات خود بری ہو۔ اور ان سے محبت کرنا بھی ایک فطری امر ہے اور فطری امر بھی بذات خود برا نہیں ہوتا۔ اگر ان چیزوں کی محبت انسان کے دل میں نہ ڈالی جاتی تو اس دنیا کی رنگینیاں، یہ لہلہاتے کھیت اور باغات اور تہذیب و تمدن کے نظارے کچھ بھی نظر نہ آتا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو یہ چیزیں بذات خود بری ہیں اور نہ ہی ان سے محبت اور ان کا حصول بری چیز ہے۔ بری چیز یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کی محبت اور حصول میں اس قدر غرق ہوجائے کہ اسے آخرت یاد ہی نہ رہے۔ البتہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت موجود ہوتی ہے۔ وہ انہیں چیزوں کو اسی طرح حاصل کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں کہ انہیں انہی چیزوں سے دنیا کی راحت و سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزوں اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اس طرح ہی انسان کو بہتر ٹھکانا میسر آسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔