سورة آل عمران - آیت 13

قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تمہارے لیے ان دو گروہوں میں نشان عبرت ہے جو (بدر میں) ایک دوسرے کے مقابلہ پر اترے۔ ان میں سے ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا جو ظاہری آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہا تھا۔ مگر اللہ تو اپنی مدد [١٤] سے اس کی تائید کرتا ہے جس کی وہ چاہتا ہے۔ اس واقعہ میں بھی صاحب نظر لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤]کافروں کومسلمانوں کی تعداد دوگنا نظرآنا:۔ اس آیت میں روئے سخن سب قسم کے کافروں سے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان جنگ کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ مسلمان تعداد میں تہائی سے بھی کم تھے۔ تین سو تیرہ اور یہ بعینہ وہی تعداد تھی جو طالوت کے لشکر کی تھی۔ جبکہ مشرکین مکہ کی تعداد ایک ہزار تھی۔ میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ نے قلیل ہونے کے باوجود اپنے تابعداروں کو ہی فتح و نصرت عطا فرمائی۔ میدان بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو کچھ اس انداز سے کھڑا کیا تھا کہ وہ کافروں کو اپنی اصل تعداد سے دوگنے نظر آتے تھے اور یہ آپ کی ایک جنگی تدبیر تھی۔ اگرچہ مسلمان تعداد، اسلحہ، جنگ اور سامان خوراک ہر لحاظ سے کافروں کے مقابلہ میں کمزور تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید سے مسلمانوں کی مدد کرکے شاندار فتح عطا فرمائی اور مسلمانوں کو سب کفار کے مقابل ایک جیتی جاگتی قوت بنا دیا۔ جنگ بدر کا ابتدائی منظر اور عریش:۔ غزوہ بدر دراصل کفر اور اسلام کا ابتدائی معرکہ تھا۔ جہاں ایک طرف کفار کو اپنی کثرت تعداد، اسلحہ جنگ کی فراوانی اور اپنی جنگی مہارت پر ناز تھا تو دوسری طرف مسلمان صرف اللہ کی ذات پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ ایک طرف شراب و کباب کا دور چل رہا تھا اور رقص و سرور کی محفلیں برپا تھیں تو دوسری طرف مسلمان اللہ کے حضور دعاؤں اور نمازوں میں مصروف تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک الگ خیمہ لگایا ہوا تھا۔ جس میں رات بھر آپ گریہ و زاری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خیمہ میں تشریف لائے اور آپ کی حالت دیکھ کر کہا : اب بس کیجئے آپ نے دعا مانگنے میں انتہا کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے بعد یہ فرمایا۔ ’’اے اللہ ! اگر تو نے اس مٹھی بھر جماعت کو آج ختم کردیا تو قیامت تک تیرا کوئی پرستار باقی نہ رہے گا۔‘‘ یہ دعائیں مانگ کو جب آپ خیمہ سے باہر نکلے تو آپ کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے اور اللہ کی طرف سے آپ کو فتح کی بشارت مل چکی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت ﴿ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾) میدان بدرمیں تائید الٰہی کی صورتیں:۔ میدان بدر ایک ریگ زار میدان تھا۔ مگر کافروں نے پہلے پہنچ کر ایک پکی زمین پر قبضہ جما لیا تھا اور مسلمانوں کے پڑاؤ کے لیے سوائے ریتلے میدان کے کچھ نہ تھا۔ اب اللہ کی تائید مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی کہ ہوا چل پڑی۔ جس کا رخ کفار کے لشکر کی طرف تھا۔ ریت اڑ اڑ کر ان کی زبوں حالی کا باعث بن گئی۔ پھر اس کے بعد بارش ہوگئی، تو کفار کے پڑاؤ میں پھسلن بن گئی اور مسلمانوں کے پاؤں پھسلنے کے بجائے جمنے لگے۔ تیسری تائید الٰہی یہ تھی کہ اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل فرمایا اور پورے صبرو ثبات کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں جم گئے اور چوتھی تائید یہ تھی کہ اللہ نے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کو سہارا دیا۔ اس پے در پے تائید الٰہی کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی اور کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ کی تائید صرف اصحاب بدر کے لیے مخصوص نہ تھی۔ اس سے پہلے بھی اللہ نے اپنے بندوں کی ایسی ہی تائید فرمائی اور بعد میں بھی کی اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان خالصتاً اللہ کے عبادت گزار اور صرف اسی پر بھروسہ رکھنے والے ہوں۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی