قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
وہ کہنے لگے : ’’کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ کمینے لوگوں [٧٥] نے تمہاری پیروی کی ہے۔‘‘
[٧٥] انبیاء کے اولین مخالف مترفین ہوتے ہیں:۔اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر نبی کی دعوت کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جنہیں عموماً چودھری، اشراف یا شیوخ کہا جاتا ہے اور قرآن ان کا ذکر ملأ اور مترفین کے الفاظ سے کرتا ہے۔ اور یہ لوگ انبیاء کی مخالفت محض اس لئے کرتے ہیں کہ انھیں نبی پر ایمان لانے کی صورت میں مطاع کے بجائے مطیع بننا پڑتا ہے۔ لہٰذا ابتداء میں نبیوں پر ایمان وہی لوگ لاتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ نہیں ہوتا اور جنہیں یہ اشراف عموماً حقیر اور کمینہ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ مترفین کاقول کہ تمہارے ساتھی رذیل لوگ ہیں:۔ دوسری یہ بات کہ یہ اشراف اس بات میں اپنی ہتک اور توہین سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لا کر خود بھی اس حقیر اور کمینہ قسم کے لوگوں میں شامل ہو کر ان میں برابر کی سطح پر آجائیں۔ یعنی دوسری یہ چیز بھی ان کے ایمان لانے میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ چونکہ قریش مکہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے لہٰذا اس سوال و جواب میں بھی گویا انہی کا ذکر ہے۔ بلکہ ان کا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ بھی ہوتا تھا کہ اس قسم کے لوگوں کو اگر آپ اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کی باتیں سننے کو تیار ہیں۔( تفصیل کے لئے سورۃ انعام کی آیت نمبر ٥٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے )