فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ
یہ تو میرے دشمن [٥٢] ہیں (جو جہنم میں لے جائیں گے) بجز رب العالمین [٥٣] کے
[٥٢] سیدنا ابراہیم کی بتوں سے دشمنی :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ بت تمہارے دشمن ہیں بلکہ یوں فرمایا کہ یہ میرے دشمن ہیں۔ تاکہ قوم کے لوگ چڑ نہ جائیں اور ضد بازی پر نہ اتر آئیں۔ اور ان کے دشمن ہونے کا ذکر سورۃ مریم کی آیت نمبر ٨٢ میں موجود ہے کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو آمنے سامنے لا حاضر کرے گا تو یہی معبود خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان، اپنے عبادت کرنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اور کہیں گے کہ احمقو! تمہیں ہم نے کب کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر ہماری عبادت کیا کرو۔ یہ تو آخرت میں دشمنی ہوئی اور آج یہ میرے دشمن ہیں۔ لہٰذا یہ میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہیں میں حاضر ہوں، میں دیکھوں گا کہ میرا یہ کیا نقصان کرسکتے ہیں اور ان کے دشمن ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ میں بھی ان کا دشمن ہوں۔ یعنی جہاں تک مجھ سے بن پڑا میں بھی ان سے دو دو ہاتھ کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان معبودوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے بھی تھے۔ جس کا ذکر سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٥٧، ٥٨ میں گزر چلا ہے۔ [٥٣] میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی کو بھی معبود تسلیم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہی ساری کائنات کا خالق ہے، مالک ہے، ان کی تربیت کرنے والا اور ان پر کنٹرول اور ان کی نگہداشت کرنے والا ہے اور مخلوق اور مملوک کے لئے یہی سزاوار ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے علاوہ کسی دوسرے کی غلامی نہ کرے۔