وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ
اور اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے [٤٥]۔
[٤٥] اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بنی اسرائیل کے لئے نجات کی راہ پیدا کردی۔ اور بنی اسرائیل اس میں سے گزر کر بخیر وعافیت اس بحیرہ کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے اس وقت فرعون کا لشکر انہی راستوں سے گزر کر سمندر پاکر کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ شاید اس وقت موسیٰ علیہ السلام کو یہ خیال آیا ہو تو اب دوبارہ سمندر پر اپنا عصا ماریں۔ تاکہ پانی پھر سے آپس میں مل جائے اور فرعون کا لشکر ان تک نہ پہنچنے پائے لیکن اسی وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ﴿ وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ﴾(٤٤: ٢٤) یعنی سمندر کو اسی حال میں پہاڑوں کی طرح کھڑا چھوڑ دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی صرف یہی نہیں تھی کہ بنی اسرائیل ان فرعونیوں سے نجات پاجائیں بلکہ یہ بھی تھی کہ اس ظالم قوم کو سمندر میں غرق کرکے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا جائے۔ فرعون اور اس کےلشکر کی غرقابی :۔ فرعون اور آل فرعون اگر بنی اسرائیل کا تعاقب نہ کرتے یا سمندر سے ہی واپس چلے جاتے تو ان کا صرف اتنا ہی نقصان ہوتا کہ ایک غلام قوم ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر اللہ کی مشیت پوری ہو کے رہتی ہے۔ ان کی ہلاکت ہی انھیں مقام ہلاکت پر کھینچ لائی تھی۔ پھر جب انہوں نے سمندر میں کھلے راستے دیکھے۔ پھر بھی فرعون کو یہ خیال نہ آیا کہ ممکن ہے کہ سمندر میں اس طرح راستہ بن جانا ایک خرق عادات امر اور موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہو۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ فوراً اپنے گھوڑے انہی راستوں پر ڈال دیئے۔ اور جب فرعون کا پورا لشکر سمندر کی زد میں آگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ اپنی طبعی حالت پر واپس آجائے اور آپس میں مل جائے۔ چنانچہ خدائی کے بلند و بانگ دعویٰ کرنے والا فرعون اپنے تمام اہلیان سلطنت اور لاؤ لشکر سمیت اس سمندر میں غرق ہوگیا۔