فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ
چنانچہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ : ’’اپنا عصا سمندر پر مارو‘‘ چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ایک حصہ [٤٤] ایک بڑے پہاڑ کی طرح (ساکن و جامد) ہوگیا۔
[٤٤]عصا مارنےسے سمندرمیں بارہ راستے بن جانا:۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بموجب وحی الٰہی جب اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ دو حصوں میں بٹ گیا اور درمیان میں کافی کشادہ راستہ بن گیا۔ اور راستہ خشک بھی فوراً ہوگیا۔ نیچے دلدلی زمین نہیں تھی۔ ایک طرف کا پانی بھی ساکن جامد پہاڑ کی طرح کھڑا کا کھڑا رہ گیا اور دوسری طرف کا بھی۔ لیکن مفسرین کی نقل کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خشک راستہ نہیں بلکہ بارہ راستے بنے تھے اور ﴿كُلُّ فِرْقٍ ﴾کے الفاظ بھی ان روایات کی تائید کرتے ہیں کیونکہ کل کا لفظ دو کے لئے نہیں آتا۔ روایات کے مطابق سمندر میں بارہ راستے بنے تھے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی قبیلے تھے اور ہر قبیلے کے تقریباً بارہ ہزار افراد تھے جو ہجرت کرکے آئے تھے اس لحاظ سے ان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار بنتی ہے اور بعض روایات کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ جبکہ فرعون کے لشکر کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی۔