هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
وہی، جیسے چاہتا ہے تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں بناتا [٥] ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ زبردست ہے، حکمت والا ہے
[٥] تخلیق انسان میں اللہ کی قدرت کاملہ:۔ یعنی نطفہ کو کئی مراحل سے گزار کر اسے انسان کی شکل میں پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت کاملہ کا یہ حال ہے دنیا میں کروڑوں، اربوں، انسان پیدا ہوچکے ہیں لیکن کسی کی شکل و صورت دوسرے سے کلی طور پر نہیں ملتی۔ بنیادی اختلاف تو صرف تین قسم کے ہوتے ہیں۔ رنگ کا اختلاف قدو قامت کا اختلاف اور نقوش کا اختلاف لیکن محض ان تین قسم کے اختلاف سے اربوں انسانوں میں سے ہر ایک کو مابہ الامتیاز شکل و صورت عطا فرمانا اسی وحدہ لاشریک کی قدرت کاملہ کا کارنامہ ہے اور اس کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہے کہ اس نے استقرار حمل سے لے کر بعد کے تمام مراحل میں جنین کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت تک کو بھی پورا کرنے کا اہتمام فرمایا اور پیدا ہونے کے بعد اس کے جسم اور روح کی تربیت کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لیے مہیا فرما دیں۔ اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ یہ گویا ایک دعویٰ تھا جس کا ثبوت اس آیت میں دیا گیا کہ جو ہستی رحم کی تاریکیوں میں جنین کی پرورش کرنے پر قادر ہے۔ اس سے کوئی چیز بھلا پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ اس آیت میں تو مصالح جسمانیہ کا ذکر تھا اور اگلی آیت میں انسان کے مصالح روحانیہ کا ذکر ہے۔