إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ
’’ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ضرور ہماری خطائیں معاف فرما دے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان [٣٨] لائے ہیں‘‘
[٣٨]ایمان لانےکےبعدجادوگروں کے کردارمیں تبدیلی :۔ مقابلہ سے پہلے جادوگروں کی یہ حالت تھی کہ وہ فرعون سے انعام و اکرام حاصل کرنے کے لئے التجا کر رہے تھے لیکن جب وہ علی وجہ البصیرت صدق دل سے ایمان لے آئے تو ان کے ذہن میں یک لخت انقلاب آگیا۔ جیسے یکدم کسی کی آنکھیں کھل جائیں۔ ان کے ایمان نے ان میں اتنی جرات پیدا کردی تھی کہ اب وہ اسی جابر اور ظالم فرعون کی سولی کی دھمکی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے تھے وہ یک زبان ہو کو بول اٹھے تم جتنا برا سلوک ہم سے کرسکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ زیادہ سے زیادہ تم ہمیں مار ہی سکتے ہو۔ اس سے زیادہ تو ہمارا کچھ بگاڑ سکو گے مگر ہمیں جو دولت ایمان میسرآئی ہے وہ ان تکلیفوں کے مقابلہ میں ہزار درجہ بہتر ہے۔ اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ زندگی کی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس معرکہ حق و باطل میں جادوگروں کی شکست کے بعد جس طرح جادوگر ایمان لائے تھے اسی طرح فرعون بھی ایمان لے آتا۔ مگر وہ پہلے سے زیادہ اکڑ بیٹھا جس کی وجہ محض یہ تھی کہ اگر وہ ایمان لاتا تو اس کی ساری حکومت اور اقتدار ہاتھ سے جاتا تھا اور اسے موسیٰ علیہ السلام کا مطیع فرمان بنا کر رہنا پڑتا تھا۔ لیکن جادوگروں کو ایسی کوئی فکر لاحق نہ تھی۔ جس سے ایک واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اپنے جاہ، اپنی سرداریوں اور اپنے اقتدار سے دستبرداری ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ انبیاء کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے مخالف اور دشمن ہوتے ہیں۔