لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِن كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ
’’اگر یہ جادوگر غالب رہے تو شاید ہمیں انھیں کی بات [٣١] ماننی پڑے‘‘
[٣١] فرعون کاغالب فریق کا ساتھ دینے کا اعلان :۔فرعون نے لوگوں کو اس اجتماع میں شمولیت کی عام دعوت اس امید پر دی تھی کہ چوٹی کے جادوگروں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوگی پھر اعیان سلطنت بھی وہاں موجود ہوں گے تو ان کے دبدبہ اور رعب سے بھی موسیٰ مرعوب ہو کر رہ جائے گا۔ اپنی اس توقع کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ امید قوی یہی ہے کہ ہمارے جادوگر غالب آئیں گے۔ اس صورت میں ہمیں اپنے جادوگروں ہی کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ موسیٰ کی شکست اور مغلوبیت پوری طرح سب لوگوں پر کھل کر واضح ہوجائے۔ گویا وہ لوگوں کو تاثر یہ دینا چاہتا تھا کہ جب مقابلہ میں ہمارا پلہ بھاری رہے گا تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آجائے گا کہ ہمارا ہی دین درست ہے اور اس سے منحرف ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اور اس فیصلہ میں ہماری خود غرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ بلکہ انصاف کا تقاضا ہی یہ ہے کہ جو غالب ہو اس کا ساتھ دیا جائے۔ اور بعضوں نے کہا ﴿السحرة﴾ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام لئے ہیں۔ یعنی فرعون نے بھرے دربار میں اعلان یہ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس مقابلہ میں حضرت موسیٰ اور ان کا بھائی کامیاب ہوجائیں۔ اس صورت میں ہم ان کی راہ پر چلیں گے۔ اس صورت میں بھی فرعون کی مراد یہی تھی کہ مقابلہ کے بعد ہم انصاف کی راہ اختیار کریں گے جس میں ہماری خود غرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ جو فریق بھی غالب آیا ہمیں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔