فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ
لہٰذا میں تمہارے خوف [١٤] سے بھاگ گیا۔ پھر مجھے میرے پروردگار نے حکمت عطا فرمائی اور مجھے رسول بنایا۔
[١٤]سیدناموسیٰ علیہ السلام کا قتل خطأ کا اعتراف:۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی دونوں باتوں میں سے دوسری کو زیادہ اہم سمجھ کر اس کا جواب دیا اور کہا کہ میں قبطی کے قتل کا مجرم ضرور ہوں۔ لیکن میں نے یہ قتل عمداً نہیں کیا تھا۔ بلکہ نادانستہ طور پر قتل خطا واقعہ ہوگیا تھا۔ میرا قتل کا ارادہ ہرگز نہ تھا۔ نہ میں نے کوئی ایسا آلہ استعمال کیا تھا۔ جو قتل کے لئے استعمال ہوسکتا ہے میری خطا صرف اتنی ہے۔ کہ میری سبطی قوم کے ایک آدمی پر تیری قبطی قوم کا ایک آدمی زیادتی کر رہا تھا اس نے میرے سامنے فریاد کی میں نے جب دیکھا کہ زیادتی قبطی کی ہے اور سبطی مظلوم ہے تو میں نے اس مظلوم کی حمایت کرتے ہوئے قبطی کو مکہ مارا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ مر گیا۔ میں نے کسی برے ارادے سے ہرگز یہ کام نہیں کیا تھا۔ ہاں جب معلوم ہوگیا کہ مجھے سزا دینے کی تجویزیں ہو رہی ہیں تو میں نے راہ فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی تھی۔ گویا اس واقعہ میں جتنا موسیٰ علیہ السلام کا قصور تھا اس کا انہوں نے فرعون کے سامنے برملا اعتراف کرلیا۔ رہی یہ بات کہ اب میں پیغمبری کا دعویٰ کر رہا ہوں۔ جب کہ پہلے کبھی میں نے ایسی بات نہیں کہی تھی کہ اس کا جواب یہ ہے۔کہ جب میں یہاں سے بھاگ کر گیا تھا تو اس کے مدتوں بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی عطا فرمائی اور حکمت بھی۔ اور ساتھ ہی مجھے تمہارے پاس پہنچ کر اپنا پیغام تجھے پہنچانے کا حکم دیا ہے۔