لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
(اے نبی!) اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس غم میں شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک ہی کر [٢] ڈالیں گے
[٢]کفار کے ایمان نہ لانے پر آپ کی پریشانی کی وجوہ :۔ آپ کی یہ انتہائی آرزو تھی کہ کفار مکہ ایمان لے آئیں اور جب وہ ایمان لانے کے بجائے معاندانہ روش اختیار کرتے تو آپ کو اتنا ہی شدید صدمہ ہوتا تھا۔ اس کی وجوہ کئی تھیں۔ ایک یہ کہ آپ خلق خدا کے لئے نہایت ہمدردانہ اور مشفقانہ جذبات رکھتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ یہ لوگ میری مخالفت کرکے جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ لہٰذا آپ کو ان کی اس مخالفت سے شدید دکھ ہوتا تھا۔ دوسری وجہ فطری تھی۔ انسان جس کام میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر رہا ہو اگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نظر نہ آرہا ہو تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور اسے سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ تیسری وجہ یہ تھی جس میں دوسرے مسلمان بھی شامل تھے۔ کہ اگر یہ لوگ اسلام قبول کرلیتے تو اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی تھی۔ بصورت دیگر مسلمانوں کی ایذاؤں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر آپ کفار کے انکار پر شدید افسردہ اور غمگین رہتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتےہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ انہیں راہ راست پر لانا آپ کے ذمہ نہیں اور جو کام آپ کے ذمہ ہے وہ آپ کر ہی رہے ہیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑیئے اس سے نپٹنا میرا کام ہے۔ آپ بس اپنا کام کرتے جائیے۔