وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا
اور جب انھیں اپنے رب کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر اندھے اور بہرے [٩0] ہو کر نہیں گرتے (بلکہ ان کا گہرا اثر (91) قبول کرتے ہیں)
[٩٠]وحی کو عقل کے تابع رکھنے والے حضرات کا قرآن کی اس آیت سے استدلال :۔ یعنی جب اللہ کے بندوں کو آیات الہٰی سے نصیحت اور یاددہانی کرائی جاتی ہے تو اس نصیحت سے ان کے دل پوری طرح اثر قبول کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ بعض عقل پرست حضرات اس آیت کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو جب آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بلا سوچے سمجھے ان پر نہیں گرے پڑتے بلکہ اگر وہ آیات عقل کے مطابق ہوں تو تب انہیں قبول کرتے ہیں اور اس سے مزید نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ قرآن کا کوئی حکم ایسا نہیں جو عقل انسانی کے مطابق نہ ہو۔ اس طرح وہ وحی الہٰی کو عقل کے تابع بنادیتے ہیں۔ یہ سلوک تو ان کا قرآن سے ہے اور جو سلوک ان کا احادیث نبویہ سے ہوسکتا ہے اس کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ حالانکہ دین میں جتنے بھی تعبدی امور ہیں وہ سب ایسے ہیں جن تک عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ مثلاً یہ کہ حدث یا ہوا نکلنے سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے اور صاف ستھرے اجزائے بدن کو از سر نو کیوں دھونا پڑتا ہے۔ یا مثلاً یہ کہ اگر ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ حرام کیوں ہوجاتا ہے اور اس کے گوشت میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ اس کا کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور ایسی مثالیں بے شمار ہیں۔ گویا اصل مفہوم کے لحاظ سے اس آیت کا مقصد اللہ کی آیات میں غور و فکر اور اثر پذیری ہے لیکن عقل پرستوں کے نزدیک اس آیت کا مقصد اللہ کے احکام کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔ اگر وہ پوری اترے تو اسے قبول کرلیا جائے ورنہ اس کی تاویل کر ڈالی جائے۔ [٩١] اہل خانہ کو دینداربنانےکی کوشش کے ساتھ ساتھ دعابھی ضروری ہے :۔ مکی دور میں مسلمانوں کی زندگی کچھ اس طرح گزر رہی تھی کہ اگر باپ مسلمان ہے تو اولاد کافر ہے اور اولاد مسلمان ہے تو والدین کافر ہیں۔ شوہر مسلمان ہے تو بیوی کافر ہے اور بیوی مسلمان ہے تو شوہر کافر ہے۔ یہ صورت حال بھی مسلمانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کا باعث بنی ہوئی تھی۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی کہ وہ یہ بھی دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ازواج اور ہماری اولاد کو بھی ایمان کی دولت نصیب فرما تاکہ ہمارے اس قلق و الم کا تدارک ہوسکے۔ واضح رہے کہ جس طرح ہر عورت کے لئے اس کا خاوند زوج ہے اسی طرح ہر مرد کے لئے اس کی بیوی اس کا زوج ہے اور اولاد دونوں کی ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ دعا ہر مسلمان مرد اور عورت سب کے لئے یکساں ہے۔ پھر یہ دعا صرف اس دور کے مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں ہر دور میں اس کی ضرورت برقرار ہے۔ بیوی اور اولاد ایسے چیزیں ہیں جن سے انسان کو فطرتا محبت ہوتی ہے اور اس کے لئے آزمائش کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا ہر مسلمان کو جس طرح اپنے حق میں دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ ویسے ہی ان کے حق میں بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر اس کے لئے پریشانیوں کا سبب نہ بن جائیں۔ بلکہ اللہ کے فرمانبردار اور دین کے خادم بن کر اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔