وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں [٨٥] اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا۔
[٨٥]عرب معاشرہ میں شرک‘قتل ناحق اور زنا کی کثرت اور ان کاموں سے اجتناب:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تین بڑے بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں اس دور کا عرب معاشرہ بری طرح مبتلا تھا۔ ہر قبیلے کا الگ الگ بت ہوتا تھا۔ پھر ایک بڑا بت کئی قبائل کا مشترکہ بھی ہوتا تھا۔ بیت اللہ شریف کے متولیوں نے اللہ کے اس گھر کو جس کی بنیادی ہی توحید پر رکھی گئی تھی تین سو ساٹھ بتوں سے بھر دیا تھا۔ پورے عرب میں لوٹ مار اور قتل و غارت ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ پھر اگر کسی قبیلہ کا کوئی دشمن قتل ہوجاتا تو سمجھ لو کہ سالہا سال تک کے لئے ان دونوں قبائل میں جنگ ٹھن گئی۔ ایسی لڑائیوں نے گھرانوں کے گھرانے اجاڑ دیئے تھے۔ شراب نوشی اور زنا ان لوگوں کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ زنا کو وہ کوئی معیوب فعل نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے ادبا و شعراء میلوں میں اپنے زنا کے واقعات اور اپنی محبوبہ کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ صفا اور مروہ پہاڑیوں پردو بت رکھے گئے تھے جن کا نام اساف اور نائلہ تھا یہ دونوں دراصل ایک زانی مرد اور زانی عورت تھے جنہوں نے حرم کعبہ میں زنا کیا تھا۔ ان کے متعلق مشہور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس جرم میں پتھر بنا دیا تھا۔ بعد کے لوگوں نے انہی پتھروں کو صفا اور مروہ پر رکھ کر ان کی پوجا شروع کردی۔ اسی بات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ زنا ان کے ہاں گناہوں میں شمار بھی ہوتا تھا یا نہیں۔ پھر قتل ناحق کی ایک صورت ان کے ہاں رائج تھی اور وہ تھی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا۔ ( جس پر پہلے تفصیل سے لکھا جاچکا ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ان شدید جرائم سے بچے رہتے ہیں جن میں عرب کا معاشرہ بری طرح پھنسا ہوا ہے۔