فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا
لہٰذا آپ کافروں کا بات نہ مانئے اور اس قرآن کی ہدایات کے مطابق ان سے زبردست جہاد [٦٤] کیجئے۔
[٦٤] کافروں سے جہاد کبیرکیوں اورکیسے؟ یعنی ہم چاہتے تو ہر بستی میں الگ الگ نبی بھیج دیتے اور ہر جگہ ہی حق و باطل کے معرکے بپا ہوتے۔ لیکن ہماری مشئت یہی ہے کہ اب ایک ہی آفتاب نبوت بھیج دیا جائے جس کی رسالت سب لوگوں کے لئے یکساں ہو اور تاقیامت ہو۔ جیسا کہ ایک ہی آفتاب ساری دنیا کو منور کر رہا ہے اور تاقیامت کرتا رہے گا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ نبی جتنا عظیم الشان ہوگا۔ معرکہ حق و باطل بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ اسی لئے یہ تاکید فرمائی کہ کافروں سے کسی قسم کے سمجھوتہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کافروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیجئے۔ یہ خطاب اگرچہ بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔ لیکن اس میں آپ کی پوری امت بھی شامل ہے۔ جہاد کا لغوی معنی کسی مقصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش ہے اور جہاد کبیر میں تاکید مزید بھی پائی جاتی ہے اور وسعت اور پھیلاؤ بھی۔ یعنی ایک تو اس امت کا ہر فرد اپنی اس کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اور اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرے۔ اور دوسرے یہ کہ دشمن کا ہر اس محاذ پر مقابلہ کیا جائے۔ جس پر اسلام دشمن طاقتیں کام کر رہی ہوں۔ اور اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے، مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی۔ غرضیکہ جس محاذ پر بھی دشمن آور ہو اسی محاذ پر اس کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔