وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
ہم نے یہ بات مختلف طریقوں سے ان کے سامنے بیان کی ہے تاکہ وہ کچھ سبق حاصل کریں [٦٣]۔ لیکن اکثر لوگ کے سوا کوئی اور بات تسلیم ہی نہیں کرتے
[٦٣] جنتی بھی اللہ کی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ان سے سبق حاصل کرنے کے لئے تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہیں۔ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان باتوں پر دھیان دیتی ہے اور نہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاتی ہے۔ اور بعض انسان تو ایسے غلط عقائد میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بارش فلاں ستارہ کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے عقائد عام تھے اور ہر اچھی اور بری بات کو سیاروں کی گردش سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ حدیبیہ کے مقام پر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ سمیت عمرہ کی عرض سے تشریف لائے۔ ایک رات بارش ہوئی جو عرب جیسے بے آب و گیاہ ملک میں ایک عظیم نعمت متصور ہوتی تھی تو صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” میرے بندوں میں میں سے کچھ لوگ مجھ پر ایمان لائے اور ستاروں کے منکر ہوئے۔ یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی تو وہ میرا منکر ہوا اور سیاروں پر ایمان لایا۔“ ( بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم ) گویا ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرنا اور اللہ پر ایمان لانا دو متضاد باتیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز قبول کی جاسکتی ہے جو ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ ان اثرات کو تسلیم نہیں کرسکتا۔