أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
یا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو مویشیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے [٥٦] ہیں۔
[٥٦]کافرمویشیوں سےبدترکیوں ہیں؟ ایسے انسانوں کی مویشیوں سے بدتر ہونے کی دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ ہر مویشی اپنے پالنے والے کو خوب پہچانتا ہے اور اس کا وفادار اور فرمانبردار ہوتا ہے۔ اور اپنے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے۔ اور اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو اپنے مالک کے گھر واپس آتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بات تسلیم کرنے کے باوجود کہ اس کا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے۔ اپنی نیاز مندیوں اور نذروں نیازوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بنالیتا ہے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی آنکھوں اور کانوں سے اتنا ہی کام نہ لینا چاہئے۔ جتنا جانور لیتے ہیں۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا ریوڑ اپنے ہانکنے والے کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز سنتا ہے۔ بھیڑ بکریاں بس اس کے اشارے پر چلتی ہیں انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ہانکنے والا انھیں چرانے کے لئے لے جارہا ہے یا ذبح کرنے کے لئے۔ کیونکہ اللہ نے انہیں اتنی عقل نہیں دی کہ وہ قرائن سے آنے والے حال کا کچھ اندازہ کرسکیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عقل و تمیز عطا کی ہے کہ وہ چرواہے اور قصائی میں امتیاز کرسکے لیکن اس کے باوجود جو شخص اپنے بھلے اور برے میں تمیزنہ کرسکے یا اسے یہ بھی معلوم نہ ہوسکے کون سے سیدھی راہ کی طرف بلا رہا ہے اور کون گمراہی کی تاریکیوں میں دھکیل رہا ہے؟ اس کا دوست کون ہوسکتا ہے اور دشمن کون؟ تو ایسے انسان واقعی جانوروں سے بدتر ہوتے ہیں۔