وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا
اور اس لئے بھی کہ جب بھی یہ کافر آپ کے پاس کوئی مثال (اعتراض) لائیں تو اس کا ٹھیک اور برجستہ [٤٤] جواب اور بہترین توجیہ ہم نے آپ کو بتلا دیں۔
[٤٤] قرآن کےبتدریج ہونے کےفوائد :۔ کفار نے یہ اعتراض متعدد بار کیا اور مختلف مقامات پر قرآن نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔ اس مقام پر قرآن کو بتدریج نازل کرنے کے تین فوائد بتائے گئے ہیں۔ ١۔ نبی کی دعوت پر جو معرکہ حق و باطل بپا ہوتا ہے اور جس طرح باطل ہجوم کرکے حق پر ایک دم ٹوٹ پڑتا ہے تو یہ معرکہ کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں ہوتا بلکہ نبی کی پوری زندگی کو محیط ہوتا ہے۔ اور جب بھی حالات مسلمانوں کے لئے حوصلہ شکن ہوتے ہیں تو انہیں تسلی دینے اور ان کی ڈھارس بندھانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور ایک ہی دفعہ حوصلہ افزائی خواہ کتنی ہی کی جائے۔ وہ فائدہ نہیں دے سکتی۔ جو فائدہ ساتھ کے ساتھ اور بارہا حوصلہ افزائی کا ہوتا ہے۔ ٢۔ قرآن کو حفظ کرنا، اسے سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی پوری طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کرنا اسی صورت میں ممکن تھا کہ قرآن کریم بتدریج نازل ہوتا۔ قرآن کو بتدریج نازل کرنے سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ہر ایمان لانے والے کو یہ معلوم ہے کہ فلاں آیت یا فلاں سورت کا شان نزول کیا تھا اور کس طرح کے پس منظر میں یہ نازل ہوئی تھی۔ نیز اگر کوئی شخص قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی مفہوم کو غلط معنی پہناتا تو قرآن ساتھ کے ساتھ نازل ہو کر اس مفہوم کی تردید کرکے صحیح تعبیر پیش کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں معاشرہ سے برائیوں مثلاً شراب نوشی، لوٹ مار، قتل و غارت، بے حیائی، زنا اور سود کے استیصال کے لئے سب احکام ایک دفعہ نازل کئے جاتے تو ان پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل ہوجاتا اور لوگ سرے سے نبی پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے سے دستبردار ہوجاتے۔ ٣۔ تیسرا فائدہ جو اگلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ کافر جس قسم کے آپ پر اعتراضات کرتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ ہم ساتھ کے ساتھ ان اعتراضات کے واضح اور مدلل جوابات دیتے جاتے ہیں۔ اب یہ کیا تک ہے کہ اعتراضات تو بعد میں ہوں اور ان کے جوابات پہلے ہی یکبارگی نازل کردیئے جائیں۔ اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں بھی یہ لوگ ان جوابات پر کئی طرح کے اعتراضات کرنا شروع کردیتے۔