وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا
اور (اے نبی)! ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب [٢٥] کھانا کھاتے اور بازروں میں چلتے پھرتے تھے۔ اور ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش [٢٦] کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ تو کیا (اے مسلمانو)! تم کفار کے [٢٧] (طعن و تشنیع پر) صبر کرو گے؟ اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے [٢٨]۔
[٢٥] یہ کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے۔ جس کا ذکر اسی سورہ کی آیت نمبر ۷ میں ہوا ہے۔ کفار مکہ کا یہ اعتراض محض کٹ جحتی کے طور پر تھا۔ ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سب کے سب انسان ہی تھے۔ حوائج بشریہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔ اور وہ اپنی زندگی کی بقاء کے لئے کھاتے پیتے بھی تھے۔ اور کسب معاش یا خرید و فروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود لوگ انہیں رسول تسلیم کرتے تھے۔ کھاناکھانا یا بازاروں میں چلنا پھرنا بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں ہے ،پھر آخر اس رسول پر ان کا یہ اعتراض کس لحاظ سے درست ہے۔ [ ٢٦] نبی کے ذریعہ سب افرادقوم کی آزمائش کیسے ہوتی ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیج کر سب لوگوں کو آزمائش میں ڈال کر ہر ایک کو خوب جانچتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو بھی اور کافروں کو بھی۔ ایمان والوں میں سے سب سے زیادہ سخت آزمائش تو خود رسولوں کی ہوتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اشد البلاء علی الانبیاء ثم الامثل فالا مثل یعنی سب سے سخت آزمائش نبیوں کی ہوئی ہے پھر اس کے قریبی مومنوں کی پھر اگلے درجہ کے مومنوں کی۔ نبی کی دعوت پر مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھرا ہوتا ہے اور ابتداًء نبی کی دعوت پر ایمان لانے والے عموماً معاشرہ کے ظلم و ستم سے عاجز آئے ہوئے اور ستائے ہوئے کمزور قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ان کی اس معرکہ حق و باطل میں خوب آزمائش ہوتی ہے تاآنکہ ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں ایماندار اپنے دعویٰ میں کس قدر پختہ ہے۔ اور منافقوں کی بھی چھانٹی ہوتی رہتی ہے اور کافروں کا امتحان اس طرح ہوتا ہے کہ انہی میں سے دنیوی مال و دولت اور جاو و حشم کے لحاظ سے ایک کمتر درجہ کا شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اپنی دعوت پر عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتا ہے۔ تو کیا وہ اپنی نخوت اور اپنا انا کو چھوڑ کر حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی رسول کی دعوت کا انکار کرتا ہے تو کس قدر سرکشی اور بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے۔ گویا ایک نبی کی دعوت پر حق و باطل کا معرکہ ایک ایسی بھٹی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عین مشیت کے مطابق ہے اور اس میں کئی حکمتیں مضمر ہیں اور اس بھٹی سے قوم کے ایک ایک فرد کی آزمائش ہوجاتی ہے۔ [ ٢٧] یہ خطاب صرف مسلمانوں کو ہے یعنی تمہاری آزمائش یہ ہے کہ آیا تم لوگ ان کافروں کے ناجائز اعتراضات ، ان کے استہزء اور ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرتے ہو جبکہ اس میں تمہارے لئے کئی قسم کی مصلحتیں اور حکمتیں موجود ہیں؟ [ ٢٨] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے پروردگار نے سب کو جو آزمائش میں ڈالا ہے تو اس کی مصلحتوں کو دیکھ کر ہی ڈالا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ معرکہ حق و باطل میں جو لوگ حق کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں بھی دیکھ رہا ہے اور جو اس کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہوگئے ہیں انھیں بھی اور ان کی کارستانیوں کو بھی اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔