قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا
وہ کہیں گے'': تیری ذات پاک ہے ہماری مجال نہ تھی کہ تیرے سوا کسی کو کارساز [٢١] بناتے مگر تو نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو خوب سامان زیست [٢٢] دیا۔ یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے کے قابل۔
[٢١] من دون اللہ سے مرادصرف بت نہ ہونے کی وجوہ:۔ یعنی معبودوں کو بھی اور ان کی عبادت کرنے والوں کو بھی سب کو آمنے سامنے لا اکٹھا کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ پہلے معبودوں کو ہی مخاطب کرکے پوچھیں گے کہ ” کیا تم نے میرے ان بندوں کو کہا تھا کہ ہم تمہارے مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ لہٰذ ا ہمارے ہاں نذرانے پیش کیا کرو۔ ہم قیامت کے دن تمہیں اللہ سے بخشوا لیں گے“ یا ان عبادت گزاروں اور تمہارے عقیدت مندوں نے خود ہی ایسے عقیدے گھڑ لئے تھے؟ اس سوال کے جواب میں معبود حضرات کہیں گے کہ یا اللہ!” ہم تو خود تجھے ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے رہے تیرے ہی سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے رہے۔ تیرے حضور ہی جھکتے اور نذریں نیازیں گزارتے رہے۔ تجھے ہی اپنا کارساز سمجھتے رہے۔ پھر بھلا ہم انہیں یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر تم ہمیں یا کسی دوسرے کو اپنا کارساز بنالو“ اس سوال و جواب سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں۔ کیونکہ بے جان کا اللہ کو کارساز بنانے کا کچھ مطلب ہی نہیں۔ ایسے سوال و جواب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے بھی کریں گے۔ جنہیں نصاریٰ نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر ١١٦ تا ١١٨) اسی طرح آگے سورۃ سبا کی آیات نمبر ٤١، ٤٢ میں مذکور ہے کہ ایسا ہی سوال و جواب فرشتوں سے بھی ہوگا جن کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ رہی یہ بات کہ عموماً ” ما“ کا لفظ غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور ذوی العقول کے لئے ”من“کا لفظ آتا ہے تو یہ کوئی ایسا کلیہ نہیں جس پر استثناء نہ ہو یہ ذوی العقول کے لئے آسکتا ہے جیسے ﴿إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُم﴾ ( ٢٣: ٦) اور استفہامہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتا ہے جیسے مازید بمعنی زید کیا ہے؟(منجد) [ ٢٢]قیامت کے دن مطیع ومطاع کامکالمہ اور ایک دوسرے پرا لزام :۔ معبود اپنی بریت کا اظہار کرنے کے بعد کہیں گے کہ ان کے گمراہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ بدبخت خود ہی گمراہ اور تباہ ہونا چاہتے تھے جس کا ظاہری سبب یہ بن گیا کہ تو نے انھیں اور ان کے آباء واجداد کو عیش و آرام دیا تھا۔ یہ لوگ بس اسی عیش و آرام میں پڑ کر اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر تیری یاد سے بے نیاز ہوگئے۔ کسی نصیحت پر کان نہ دھرا۔ پیغمبروں کی ہدایت سے آنکھیں بند کرلیں۔ تو نے ان پر جس قدر زیادہ مہربانیاں کیں اتنے ہی یہ نمک حرام ثابت ہوئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ان نعمتوں پر تیرا شکر ادا کرتے۔ مگر یہ الٹے متکبر بن کر کفر و عصیاں پر تل گئے۔