انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا
اے نبی! غور کیجئے یہ لوگ آپ کے لئے کس طرح کی مثالیں [١٤] بیان کرتے ہیں۔ یہ ایسے گمراہ ہوئے ہیں کہ راہ راست پر آ ہی نہیں سکتے۔
[١٤]کفارکویہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ آپ پرکیاالزام لگائیں ؟ یعنی کبھی کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے جو کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے کبھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں دوسروں سے بھی مدد لیتا ہے۔ کبھی آپ کو کاہن کہتے ہیں، کبھی شاعر، کبھی ساحر، جادوگر اور کبھی مسحور۔ پھر کہیں یہ کہتے ہیں کہ اسے فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر بشر ہی تھا تو کم از کم اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی رہا کرتا۔ کبھی یہ کہ اس نبی کے پاس مال و دولت کی کثرت ہونا چاہئے تھی۔ یہ سب باتیں دراصل ان کے دعوت حق کو قبول نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور تعصب نے ان کو اندھا کر رکھا ہے اور ایسی بے تکی باتیں بنانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ان کی ان باتوں کی حیثیت ” خوئے بدرابہانہ بسیار“ سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ان کی ایسی ہٹ دھرمی کی باتوں سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ دعوت حق کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کے یہ مطالبات اور اعتراضات محض شرارت اور تنگ کرنے کی بنا پر ہیں۔