وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے [٤٠٠] لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو
[٤٠٠] مقروض کو مہلت دینے یا اسے معاف کردینے میں جو بہتری ہے وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتی ہے: (١) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’ جس شخص کو یہ بات محبوب ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات دے اسے چاہئے کہ تنگدست کو مہلت دے یا پھر اسے معاف کردے۔‘‘ (مسلم : کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر) (٢)قرضہ میں مہلت کی فضیلت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’جس شخص کے ذمہ کسی کا قرضہ ہوا اور مقروض ادائیگی میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کے لئے ہر دن کے عوض صدقہ ہے۔‘‘ (احمد بحوالہ، مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الافلاس والا نظار، فصل ثالث) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے، قیامت کے دن اللہ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔‘‘ (طویل حدیث سے اقتباس) (مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب حدیث جابر و قصۃ ابی بسیر) اور اگر مقروض تنگدست ہو اور قرض خواہ زیادہ ہوں تو اسلامی عدالت قرض خواہ یا قرض خواہوں سے مہلت دلوانے یا قرض کا کچھ حصہ معاف کرانے کی مجاز ہوتی ہے۔ (اس صورت حال کو ہمارے ہاں دیوالیہ کہتے ہیں اور عربی میں افلاس اور تفلیس) چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص کو پھل کی خرید وفروخت میں نقصان ہوا اور اس کا قرضہ بہت بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : ’’اس پر صدقہ کرو‘‘ لوگوں نے صدقہ کیا، پھر بھی اتنی رقم نہ ہوسکی جو قرضے پورے کرسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں سے فرمایا : ’’جو کچھ (قرضہ کی نسبت سے) تمہیں ملتا ہے لے لو اور تمہارے لئے یہی کچھ ہے۔‘‘(مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ۔ باب وضع الجوائع) عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (میرے باپ) کعب بن مالک نے عبداللہ بن ابی حدرد سے مسجد نبوی میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ دونوں چلانے لگے۔ آپ اپنے حجرہ میں تھے۔ ان دونوں کی آوازیں سنیں تو آپ حجرے کا پردہ اٹھا کر برآمد ہوئے اور کعب رضی اللہ عنہ کو پکارا۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : حاضر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے فرمایا: ’’آدھا قرض چھوڑ دو۔‘‘ کعب رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یارسول اللہ! میں نے چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے ابو حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’اٹھ اور اس کا قرض ادا کر۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الحضومات۔ باب کلام الحضوم بعضہم فی بعض۔ نیز کتاب الصلٰوۃ، باب التقاضی والملازمۃ فی المسجد) ہاں اگر کوئی قرض خواہ مقروض کے ہاں اپنی چیز (جس کی مقروض نے قیمت ابھی ادا نہ کی تھی) بجنسہ پالے تو وہ اس کی ہوگی۔ (بخاری۔ کتاب فی الاستقراض۔ باب من وجد مالہ عند مفلس نیز مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب من ادرک مالہ۔۔) دیوالیہ کی صورت میں اسلامی عدالت مقروض کی جائیداد کی قرقی کرسکتی ہے۔ چنانچہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا تھا اور وہ مال ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے فروخت کیا گیا۔ (رواہ دارقطنی و صححہ الحاکم و اخرجہ، ابو داؤد مرسلاً) البتہ درج ذیل اشیاء قرقی سے مستثنیٰ کی جائیں گی (١) مفلس کے رہنے کا مکان، (٢) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پہننے والے کپڑے، (٣) اگر تاجر ہے تو بار دانہ اور محنت کش ہے تو اس کے کام کرنے کے اوزار، (٤) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے کھانے پینے کا سامان اور گھر کے برتن وغیرہ۔ (فقہ السنۃ، ج ٣ ص ٤٠٨)