أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ [٧٠] چلاتا ہے پھر بادل (کے اجرائ) کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بھی چمک آنکھوں کو خیرہ [٧١] کردیتی ہے
[٧٠] مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہمارے علمائے ہیئت نے اللہ کی ہر نشانی میں کچھ ایسے طبعی قوانین دریافت فرما رکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت کہیں کام کرتا نظر نہ آئے اور یہی قوانین سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں۔ مثلاً بارش کے لئے دریافت کردہ طبعی قوانین یہ ہیں کہ سمندر پر سورج کی گرمی سے بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں۔ پھر ہواؤں کا رخ ان بخارات کو کسی مخصوص سمت کی طرف اڑا لے جاتا ہے۔ تاآنکہ یہ بخارات کسی سرد منطقہ فضائی میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہ بخارات پھر پانی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور بارش ہونے لگتی ہے اور اگر شدید سرد منطقہ میں پہنچ جائیں تو پھر اولے برسنے لگتے ہیں انہی اصولوں کے مطابق ہمارے ہاں پاکستان میں بارش یوں ہوتی ہے کہ جون جولائی کے گرم مہینوں میں بحیرہ عرب سے بخارات اٹھتے ہیں جو کوہ ہمایہ سے آکر ٹکراتے ہیں یہاں ہوائیں پھر ان کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتی ہیں اور وہ اس پہاڑ کے سرد حصوں میں پہنچ کر پانی بن جاتے ہیں اور اس طرح موسم برسات یا جولائی یا اگست میں ہمارے ہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے کسی خاص مقام پر بارش ہونے کے عوامل یہ ہیں۔ سمندر سے اس مقام کا فاصلہ سطح سمندر سے بلندی، ہواؤں کا رخ، پہاڑوں کا رخ اور بلندی، ان اصولوں کے تحت ضروری ہے کہ ایک خاص مقام پر اور ایک خاص موسم میں ہر سال یکساں بارش ہو۔ کیونکہ نہ سمندر کے پھیلاؤ میں فرق آتا ہے نہ سورج کی گرمی میں، نہ پہاڑوں کی بلندی اور رخ میں سرد ہوائیں بھی طبعی قانون کے تحت ایک خاص رخ ہی اختیار کرتی ہیں۔ مگر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ہر سال یکساں بارش نہیں ہوتی۔ ایک سال تو بارشوں کی کثرت سے اس خاص مقام پر سیلاب آجاتا ہے اور کوئی سال بالکل خشک گزر جاتا ہے سرے سے بارش ہوتی ہی نہیں پھر ان طبعی قوانین کے نتائج میں یہ کمی بیشی اور تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے؟ آخر ان باتوں سے یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جاسکتا کہ کوئی ایسی زبردست اور بالاتر ہستی بھی موجود ہے جو ان بے جان قوانین کے نتائج میں تبدیلی کا پورا پورا اختیار رکھتی ہے۔ کیابارش محض طبعی قوانین کا نتیجہ ہے؟ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ بادل جو کروڑوں ٹن پانی کے بخارات سے لدے ہوتے ہیں وہ کسی سرد منطقہ میں پہنچ کر پانی بن جاتے ہیں۔ تو یہ پانی برستے وقت آخر قطروں کی شکل کیوں اختیار کرتا ہے۔ پانی کے بخارات کی مقدار قلیل ہو تو اس کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کروڑوں ٹن پانی آخر کس مقام پر یک دم کیوں نہیں گر پڑتا۔ اس پانی کی کثیر مقدار کو اس انداز میں نازل کرنا وہ خلق خدا، درختوں اور نباتات ارضی کے لئے نقصان دہ ہونے کے بجائے فائدہ مند ثابت ہو یہ آخر کون سے بے جان طبعی قانون کا نتیجہ ہے؟ پھر یہی بخارات جب شدید سرد منطقہ میں پہنچتے ہیں تو پانی جم جاتا ہے اسی کیفیت کے متعلق قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ بلندی میں اولوں کے پہاڑ ہوتے ہیں جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی وہی چیز جو اللہ کی رحمت تھی۔ اللہ کا عذاب بن کر گرنے لگتی ہے۔ اور فصلوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے انہیں تباہ کردیتی ہے۔ اور یہ اولے بھی گرتے اسی مقام پر ہیں جہاں اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق ہواؤں کے رخ کو فوراً پھیر دیتا ہے اور جن لوگوں کو چاہتا ہے اولوں کے اس عذاب سے بچا بھی لیتا ہے اور جس قوم پر چاہتا ہے یہ عذاب اسی پر نازل ہوتا ہے۔ [٧١]بادلوں اور بارش کے مضر پہلو:یعنی آبی بخارات یا منجمد بادلوں کے ٹکراؤ سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے جو گر کر ہر چیز کو جلا دیتی ہے اور اسے تباہ کرکے رکھ دیتی ہے اور اس کی روشنی اس قدر تیز اور نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ہوتی ہے کہ اگر انسان کچھ دیر اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کی بینائی کے نور کو بھی تباہ کرکے رکھ دے۔ یعنی بارش جو تمام اہل زمین کے لئے خیر کا پہلو رکھتی ہے اس میں اہل زمین کے لئے شر کے کئی پہلو موجود ہیں۔ یعنی اس بارش کے پانی میں بجلی اور آگ بھی موجود ہے۔ اس میں اتنی تیز روشنی بھی ہے جو آنکھوں کو بے نور کرسکتی ہے پھر یہی پانی اولے بن کر نقصان دہ چیز بھی بن جاتا ہے۔ لہٰذ انسان کو خوشی کے عالم میں کبھی اترانا نہ چاہئے بلکہ اللہ کی گرفت سے ڈرتے رہنا چاہئے۔