وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اور جو کافر ہیں ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل میدان میں کوئی سراب [] ہو جسے پیاسا پانی سمجھ رہا ہو۔ حتی کہ جب وہ اس سراب کے قریب آتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا۔ بلکہ اس نے اللہ کو وہاں موجود پایا جس نے اس کا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی۔
[٦٥] سراب اور شراب کا لغوی فرق : عربی زبان میں ہر مشروب یعنی پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں اور جو چیز بظاہر تو شراب نظر آئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہو اسے سراب کہتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا استعمال اس تودہ ریت پر ہونے لگا جو دور سے ایک خاص زاویہ سے سورج کی روشنی میں ٹھاٹھیں مارتا پانی نطر آتا ہے مگر حقیقتاً وہاں پانی وانی کچھ نہیں ہوتا۔ عام کافروں اور منافقوں کی مثال : یہ مثال ایسے کافروں اور منافقوں سے تعلق رکھتی ہے جو فی الجملہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں۔ خواہ وہ نمودو نمائش کے لئے ہوں پھر انھیں یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ آخرت میں انھیں ان کا اجر ملے گا۔ اور چونکہ ان کے اکثر اعمال اللہ کی مرضی نہیں بلکہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ جس طرح کسی ریگستان میں ایک پیاسا دور سے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف جاتا ہے تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے۔ وہ پیاس کا مارا جب گرم ریت کا میدان طے کرکے دوڑتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو اسے وہاں کچھ نہیں ملتا۔ اور سخت مایوس اور درماندہ ہوجاتا ہے۔ یہی حال ایسے کافروں کا ہے۔ موت کا وقت ان کے لئے سراب ہے۔ اور وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا۔ مگر کفر نفاق اور شامت اعمال کی بنا پر انھیں وہاں کچھ بھی ان کے اعمال کا بدلہ نہ ملے گا۔ اور جس طرح پیاسے کو سراب تک پہنچنے میں تھکاوٹ اور گرمی کی شدت بھی جھیلنا پڑی تھی اس طرح ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جائے گا۔