يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا [٣٢] دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا [٣٣] حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے [٣٤] حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
[٣٢] اجازت کے بغیر گھروالوں میں داخلہ پرپابند ی :۔ اس سے پہلے سورۃ احزاب میں بھی گھروں میں اذن لے کر داخل ہونے کا حکم آچکا تھا۔ لیکن اس حکم کا دائرہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک محدود تھا۔ مگر اس حکم کے ذریعہ اسے تمام گھروں تک پھیلا دیا گیا۔ اس سے پہلے اس سورۃ میں ایسے احکام بیان ہوئے ہیں۔ جن کا تعلق ایسے حالات سے تھا جب فحاشی کی بنا پر کوئی فتنہ رونما ہوچکا ہو۔ اب ایسے احکام دیئے جارہے ہیں جن پر عمل کرنے سے کسی فتنہ کے سر اٹھانے کے امکانات کم سے کم رہ جاتے ہیں۔ گویا یہ احکام فحاشی کے پھیلاؤ کے سلسلہ میں سدذرائع کا حکم رکھتے ہیں۔ عرب معاشرہ میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہوجاتے تھے۔ اس آیت کے ذریعہ ایسی آزادانہ آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی۔ [٣٣] استأنس کالغوی معنی اس آیت میں تستانسوا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ انس ہے جس کا عربی میں بھی وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے یعنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا۔ اور اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے صاحب خانہ کو علم ہوجائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت چاہ رہا ہے۔ بعض دفعہ گھنگارنے سے ہی یہ مطلب حاصل ہوجاتا ہے۔ اور بعض دفعہ بولنے یا السلام علیکم کہنے سے۔ اس طرح صاحب خانہ کو اس کی کھانسی یا آواز سے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آواز فلاں شخص کی ہے۔ یعض دفعہ کوئی شخص برقی گھنٹی ہی اس انداز سے دباتا ہے جو اس میں اور صاحب خانہ میں متعارف ہوتی ہے۔ اور گھنٹی بجانے سے ہی صاحب خانہ کو علم ہوجاتا ہے۔ کہ فلاں شخص آکر آواز دے رہا ہے۔ ایسی تمام صورتیں تستانسوا کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی لئے اس کے قریبی مفہو” رضا حاصل کرنا“ سے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ استینا س میں السلام علیکم کہنے سے ہی کیا گیا ہے تو ٹھیک ہے۔ اور اگر کسی اور طریقہ سے کیا گیا ہے تو گھر میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہنا بھی ضروری ہے۔ یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”اپنے گھروں“ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کے مفہوم میں کون کون سے گھر شامل ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے گھر سے صرف وہ گھرمراد ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ یہی وہ گھر ہے جس میں شوہر ہر وقت بلاجھجک اور بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔ اپنی ماں اور بیٹیوں تک کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : علاء بن سیار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا۔ ” کیا میں گھر جاتے وقت اپنی ماں سے بھی اذن مانگوں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں“وہ بولا : ” میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو“ وہ کہنے لگا : ” میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو۔“ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگا دیکھے؟ وہ کہنے لگا : ”نہیں“آپ نے فرمایا: ”تو پھر اذن لے کر جاؤ ۔“ (موطا امام مالک۔ کتاب الجامع۔ باب الاستیذان) اور ”اپنے گھر“ میں بلا اجازت داخل ہونے کی اجازت ضرور ہے۔ مگر بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر میں یکایک اور اچانک داخل نہ ہو۔ [٣٤]اذن کیوں ضروری ہے؟ یعنی یہ بات صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے کہ ملاقاتی صاحب خانہ سے پہلے اذن حاصل کرے۔ پھر گھر میں داخل ہو۔ اس لئے کہ اگر ملاقاتی گھر میں بلا اذن داخل ہو تو ممکن ہے اس وقت اہل خانہ اپنی کسی پرائیوٹ گفتگو میں مصروف ہوں، یا عورت بے حجاب پھر رہی ہو۔ یا صاحب خانہ کسی اور مجبوری یا معذوری کی وجہ سے اس وقت ملاقات کرنا ہی نہ چاہتا ہو اور اس طرح ملاقاتی کو خواہ مخواہ خفت یا ندامت حاصل ہو۔ لہٰذ ا مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کی جائے۔