يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش [٣٩٥] کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے [٣٩٦] بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔
[٣٩٥] اگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مال حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے۔ اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوت خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کرلے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کردیتا ہے آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ [٣٩٦] یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کی پاس اپنی ضروریات سے زائد رقم موجود ہے۔ جیسے وہ اپنے کسی محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ اسے صدقہ دینا چاہتا ہے نہ قرض حسنہ دیتا ہے بلکہ الٹا اس سے اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعہ کھینچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ زائد روپیہ اس پر محض اللہ کا فضل تھا اور صدقہ یا قرض دے کر اسے اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس نے زائد رقم کو سود پر چڑھا کر اللہ کے فضل کی انتہائی ناشکری کی۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر بدعملی اور گناہ کی بات اور کیا ہوگی۔