إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے تہمت [١٢] کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک ٹولہ ہے۔ اسے تم اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا [١٣] اتنا ہی گناہ کمایا اور ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصہ کا [١٤] ذمہ دار بنا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔
[١٢] یہاں آیت نمبر ١١ سے لے کر آیت نمبر ٢٠ تک افک کے واقعہ سے متعلق دس آیات مذکور ہیں۔ جو اس سورت کا شان نزول بنیں۔ ابتدا میں تہمت، قذف زنا کے احکام اور سزا بتانے کے بعد اس واقعہ کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہے۔ اس کی ابتداء ہی ان الفاظ سے کی گئی ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ جَاءُوْ بالْاِفْکِ﴾ یعنی یہ جو کچھ افواہیں پھیلیں اور قصے گھڑے گئے۔ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔ [١٣]واقعہ افک میں ملوث ہونے والے مسلمان اور ان پرحدقذف :۔ یہ کون لوگ تھے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاہی کی زبانی سنئے : ١۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آیت میں ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ ﴾سے مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول ہے (رئیس المنافقین) ہے۔ (بخاری۔ کتاب ا لتفسیر) ٢۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس طوفان کا چرچا (مسلمانوں میں سے) دو مرد کرنے والے تھے۔ مسطح بن اثاثہ، اور حسان بن ثابت اور تیسرا عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تھا جو کرید کرید کر پوچھتا ۔ پھر اس پر حاشیے چڑھاتا۔ وہا اس طوفان کا بانی مبانی تھا اور ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ ﴾ سے وہ اور حمنہ بنت جحش مراد ہیں۔ (عبداللہ بن ابی منافق کے علاوہ تینوں پر حد قذف لگی تھی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ مسروق سے روایت ہے کہ حسان بن ثابت (مشہور شاعر) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور یہ شعر سنایا حصان رزان ماتزن بریبہ۔۔ و نصبح غرثی من لحوم الغوافل (حضرت عائشہ ) پاکدامن، عقلمند اور ہر شک و شبہ سے بالا ہیں۔ وہ بھولی بھالی معصوم عورتوں کا گوشت کھانے (ان پر تہمت لگانے یا ان کا گلہ کرنے) سے بھوکی ہی رہتی ہیں۔ یہ شعر سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : مگر (حسان) تم تو ایسے نہیں۔ میں (مسروق) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے کہا۔ ” آپ ایسے شخص کو کیوں آنے دیتی ہیں جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ﴾۔۔۔الآیہ“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اسے اندھے پن سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا (حضرت حسان آخری عمر میں اندھے ہوگئے تھے) پھر یہ بھی کہا : کہ حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (کافروں کو ان کی ہجو کا) جواب دیتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ سیدنا حسان بن ثابت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے گواہی چاہتے تھے۔ کہتے تھے : ابوہریرہ ! تمہیں اللہ کی قسم! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے نہیں سنا : حسان! تو اللہ کے رسول کی طرف سے کافروں کو جواب دے۔ یا اللہ ! روح القدس سے حسان کی مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ”ہاں“ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب الشعر فی المسجد) [١٤] مندرجہ بالا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول مندرجہ بالااحادیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس فتنہ کا بانی مبانی عبداللہ بن ابی منافق تھا۔ اتفاق کی بات کہ اس غزوہ بن مصطلق میں جتنے زیادہ منافق شامل ہوئے تھے دوسرے کسی غزوہ میں شامل نہ ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے ہی اس بہتان کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا تھا۔ جس سے کئی سادہ لوح مخلص مسلمان بھی متاثر ہوگئے تھے۔ مثاتر ہونے والے مسلمانوں کے نام جو کتب احادیث و سیر میں ملتے ہیں اور وہ تھے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ اور ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا یعنی روایت کے مطابق ان تینوں کو قذف کی حد بھی لگی تھی۔ لیکن منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی کے سوا کسی کا نام کتب تاریخ و سیر میں نہیں ملتا۔ نہ ہی منافقوں میں سے کسی کو حد لگی تھی۔ ان کا معاملہ بس اللہ کے سپرد تھا۔ واقعہ افک میں عبداللہ بن ابی کردار:۔ جب یہ فتنہ گھڑ گیا تو منافق خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ کرتے تھے بعض اظہار افسوس کے طور پر، بعض بات چھیڑ دیتے اور خود چپکے سے سنا کرتے، اور مسلمان یہ باتیں سن کر بعض تردد میں پڑجاتے، بعض خاموش رہتے اور بہت سے یہ باتیں سن کر جھٹلا دیتے۔ اور اس قصہ کا بڑا بوجھ اٹھانے والے اور بانی عبداللہ کا یہ حال تھا کہ لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے اپنا دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا یہ جارہا ہے کہ اس قصہ میں کسی نے جتنا حصہ لیا اسی کے مطابق اسے عذاب عظیم ہوگا۔ ان حالات میں عام انسانی سوچ کے مطابق چاہئے تو تھا کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو اس اخلاقی گراوٹ پر غضب ناک گرفت فرماتے یا مسلمانوں کو جوابی حملے سے اکساتے مگر اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر علیم اور حکیم ہیں نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھر کر اس اخلاقی محاذ کو اور بھی زیادہ مضبوط بنانا چاہئے۔ اسی لئے اس سورۃ میں بہت سے ستر و حجاب کے احکام نازل ہوئے جو آگے آرہے ہیں۔