وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
اور اگر تم پر (اے مسلمانو)! اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو ایسا معاملہ تم پر سخت پیچیدہ بن جاتا) اور اللہ تعالیٰ بڑا التفات فرمانے والا [١١] اور حکیم ہے (جس نے معافی کا یہ قاعدہ مقرر کردیا۔
[١١]لعان بہت سے پیچیدہ مسائل کا حل ہے:۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ لعان کا حکم نازل نہ فرماتے تو تم پر کئی قسم کی مشکلات پڑ سکتی تھیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص خود اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا دیکھ لے تو کیا کرے؟ گواہ ڈھونڈنے جائے تو گواہوں کے آنے تک معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر گواہوں کے بغیر بات کرے تو اس پر حد قذف پڑتی ہے۔ اگر خاموش ہو رہے تو خاموشی دوسروں کے حق میں تو اختیار کی جاسکتی ہے مگر اپنی بیوی کے حق میں یہ کڑوا گھونٹ کیسے پی سکتا ہے؟ اگر بیوی کو غصہ میں آکر قتل کردے تو خود قصاص میں مارا جاتا ہے۔ اور اگر طلاق دے دے تو اس میں اس کا اپنا نقصان بھی ہے اور بیوی کو یا اس کے آشنا کو کوئی بدنی یا اخلاقی سزا بھی نہیں ملتی۔ بلکہ یہ طلاق شائد ان دونوں زانی اور زانیہ کے حق میں خوشی کا باعث ثابت ہو۔ اور اگر بالفرض محال کڑوا گھونٹ پی کر صبر کر ہی جاتا ہے تو ایک ناجائز بچے کی پرورش کا بار اس کے گلے میں آپڑتا ہے۔ جو بعد اس کا وارث بھی ہوگا۔ یہ اور ایسی ہی اور کئی مشکلات تھیں جن کا تمہارے پاس کوئی حل نہ تھا۔ اللہ نے لعان کا حکم نازل فرما کر ان تمام پیچیدگیوں کو حل کردیا۔ پھر لعان کے اس قانون میں فریقین کو یکساں سطح پر رکھا گیا ہے۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ قسمیں کھانے کے باوجود ان دونوں میں سے ایک نہ ایک ضرور سچا اور دوسرا جھوٹا ہوتا ہے۔ اور یہی باتیں اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کی زبردست دلیل ہیں۔