سورة المؤمنون - آیت 18

وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار [٢٠] میں پانی اتارا جسے ہم نے زمین میں ٹھہرا دیا اور بلاشبہ ہم اس کو لے جانے [٢١] پر بھی قادر ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠] پانی کی کل مقدار جو اللہ نے آسمان سے اتاری :۔سوال یہ ہے کہ یہ ایک خاص مقدار میں پانی اللہ تعالیٰ نے کب اتارا تھا ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو اس وقت ہی ایک خاص اور کثیر مقدار میں پانی اتار دیا تھا۔ اتنا کثیر مقدار میں جو قیامت تک زمین پر پیدا ہونے والی مخلوق، خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو، کی ضروریات کے لئے کافی ہو۔ اس کثیر مقدار کے ایک کثیر حصہ نے زمین کی تین چوتھائی سطح کو سمندروں کی شکل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ پھر اس کثیر مقدار کا کثیر حصہ زمین کی سطح کے نیچے چلا گیا جیسے زمین کے نیچے بھی پانی کے دریا بہہ رہے ہیں اور سطح زمین کا کثیر حصہ ایسا ہے کہ جہاں سے کھودیں نیچے سے پانی نکل آتا ہے۔ جو انسان نکال کر اپنے استعمال میں لاتا ہے اور کبھی زمین سے از خود چشمے ابل پڑتے ہیں۔ پھر اپنی مخلوق کی ضروریات کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا کہ سورج کی گرمی سے سمندر سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں۔ جو کسی سرد طبقہ میں پہنچ کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور مزید سردی سے زمین پر برسنے لگتے ہیں۔ اس بارش کے پانی سے زمین کی تمام نباتات سیراب ہوتی ہے۔ جاندار بھی اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ پھر اس بارش کا کچھ حصہ پانی میں جذب ہوجاتا ہے اور باقی حصہ ندی نالوں اور دریاؤں کی شکل میں پھر سمندروں میں جاگر تا ہے۔ اور جو پانی مخلوق استعمال کرتی ہے وہ بھی بالآخر یا تو پانی کی شکل میں زمین میں چلا جاتا ہے یا بخارات بن کر ہوا میں مل جاتا ہے۔ ان تصریحات سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی جتنی مقدار زمین پر نازل فرمائی تھی۔ اس مقدار میں نہ کچھ اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کمی واقع ہوئی ہے۔ البتہ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ضروریات کی تکمیل کا ایک مستقل اور دائمی انتظام مہیا فرما دیا ہے۔ نیچریت اور دہریت کارد:اس سلسلہ میں حیران کن امر یہ ہے کہ پانی بذات خود ایک مرکب چیز ہے جو دو حصے ہائیڈروجن گیس اور ایک حصہ آکسیجن سے مل کر بنتا ہے (H2O) ہائیڈروجن گیس ایک آتش گیر اور فوراً بھڑک اٹھنے والی گیس ہے اور آکسیجن وہ گیس ہے۔ جو جلانے میں مدد دیتی ہے۔ گویا ان آتشیں خاصیت والے مادوں سے اللہ تعالیٰ نے وہ چیز پیدا کی جو آگ کو بجھا دیتی ہے اور پھر اسی کو کیمیاوی عمل کے ذریعہ پھاڑ کر انھیں گیسوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اور دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس اور آکسیجن گیس آج بھی وافر مقدار میں فضا میں موجود ہے اگر وہ از خود زمین کی پیدائش کے وقت مل کر پانی بن گئیں تھیں تو آج بھی مل کر پانی کی مقدار میں اضافہ کیوں نہیں کردیتیں؟ نیچری اور دہریہ حضرات کے لئے یہ ایک بہت اہم لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے پاس تو اس کا واضح جواب موجود ہے کہ جتنا پانی بنانا اللہ کو منظور اور اس کے اندازہ کے موافق تھا اتنا بن گیا۔ ان گیسوں میں از خود یہ قدرت نہیں ہے کہ مل کر پانی بن جائیں۔ اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی مخلوق کی ضروریات کے مطابق آسمان سے بوقت ضرورت پانی برساتے ہیں۔ نہ اتنا زیادہ کہ مخلوق ڈوب کر مرجائے اور نہ اتنا کم کہ مخلوق قحط میں مبتلا ہو کر مر جائے۔ الا یہ کہ وہ عذاب الٰہی ہی کی شکل ہو۔ [٢١] یعنی پانی کے زمین دوز ذخیروں کو اتنی گہرائی تک لے جائیں کہ اسے نکالنا انسانوں کی بساط سے باہر ہوجائے۔ یا ان ذخیروں کو کڑوا کسیلا بنا دیں جو قابل استعمال ہی نہ رہیں۔