سورة البقرة - آیت 248

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز ان کے نبی نے ان سے کہا : طالوت کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ (اس کے عہد حکومت میں) تمہارے پاس وہ صندوق [٣٤٦] آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکون قلب کا سامان ہے اور وہ باقی ماندہ اشیاء بھی ہیں جو آل موسیٰ اور آل ہارون نے چھوڑی تھیں۔ اس صندوق کو فرشتے [٣٤٧] اٹھا لائیں گے۔ اگر تم ایمان لانے والے ہو تو اس واقعہ میں بھی تمہارے لیے کافی نشانی ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤٦]تابوت سکینہ کیاتھا؟ اس صندوق کو بنی اسرائیل ’’عہد کا صندوق‘‘ کہتے تھے جس میں آل موسیٰ و ہارون کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً پتھر کی وہ تختیاں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھیں اور تورات کا وہ اصل نسخہ جسے موسیٰ علیہ السلام نے خود لکھوایا تھا اور ایک بوتل میں من تھا جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا رہا۔ نیز اس میں وہ عصائے موسیٰ بھی تھا جو سانپ بن جاتا تھا۔ یہ کچھ تھا بنی اسرائیل کے سکون قلب کا سامان جو اس صندوق میں محفوظ تھا اور یہ ہر وقت ان کے پاس رہتا تھا اور جب دشمن سے جنگ ہوتی تو اس صندوق کو آگے رکھتے اور اس کی وساطت سے فتح و نصرت کی دعا کرتے۔ ایک لڑائی کے موقعہ پر مشرک بادشاہ جالوت نے ان پر غالب آ کر ان سے وہ صندوق چھین لیا اور وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس صندوق کے چھن جانے کو بنی اسرائیل اپنی نحوست و ادبار کی علامت تصور کرتے تھے اور اس کی موجودگی کو فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔ [٣٤٧]تابوت سکینہ کا طالوت تک پہنچنا:۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ بتلایا کہ اگر طالوت کے دور حکومت میں وہ چھنا ہوا صندوق تمہیں واپس مل جائے تو سمجھ لینا کہ طالوت کو فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی نے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ ان چھیننے والے مشرکوں کے شہر میں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ انہوں نے اسی صندوق کو غالباً اپنی نحوست کی علامت سمجھا اور ایک بیل گاڑی پر اس صندوق کو رکھ کر اسے ہانک دیا۔ چنانچہ فرشتے اس بیل گاڑی کو ہانک کر بنی اسرائیل تک لے آئے اور اسے طالوت کے گھر کے سامنے چھوڑ گئے۔ اس طرح ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر اتمام حجت ہوگئی اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے طالوت کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا۔