سورة طه - آیت 39

أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کہ ''تم اس بچے (موسیٰ) کو صندوق میں رکھو پھر اس صندوق کو دریا [٢٢] میں ڈال دے۔ دریا اس صندوق کو ساحل پر پھینک دے گا جسے میرا اور موسیٰ کا دشمن اٹھا لے گا۔ پھر (اے موسیٰ) میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی (کہ جو کوئی تمہیں دیکھے پیار کرنے لگے) اور یہ اس لئے کیا کہ میری نگرانی میں تمہاری پرورش [٢٣] ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] سیدنا موسیٰ کی پیدائش اور صندوق میں ڈالنا :۔ ہوا یہ تھا کہ فرعون کو ایک ڈراؤنا سا خواب آیا جس کی تعبیر اسے درباری نجومیوں نے یہ بتلائی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہونے والا ہے جو تمہاری سلطنت کو تہ و بالا کردے گا اور تمہاری ہلاکت کا موجب بنے گا اس کا توڑ فرعون نے یہ سوچا کہ آئندہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے لڑکے پیدا ہوں ان کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور اس حکم کی تعمیل کے لئے اس نے اپنے تمام اہل کاروں کو ہدایات جاری کردیں اور دائیوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جس وقت کسی بنی اسرائیل کے فرد یا سبطی کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ فورا ً حکومت کو اس کی اطلاع کرے۔ تقدیرکےسامنے تدبیر کی ناکامی :۔ دراصل فرعون کی اپنی سلطنت کو بچانے کی یہ تدبیر، کہ بنی اسرائیل کے ہاں ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے، اس کی حماقت اور ناعاقبت اندیشی پر مبنی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ جو تعبیر نجومیوں نے بتلائی تھی اس کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تعبیر غلط ہو۔ اس صورت میں اسے کسی تدبیر کی ضرورت ہی نہ تھی۔ دوسری یہ کہ وہ تعبیر درست ہو۔ اس صورت میں بھی فرعون کی کسی تدبیر کا کچھ فائدہ نہ تھا۔ اس لئے کہ تدبر سے اس تعبیر کو تبدیل کیا جاسکتا ہو تو وہ تعبیر درست کیسے قرار دی جاسکتی ہے۔ یہی دوسری صورت فرعون سے پیش آئی۔ اس کی اس ظالمانہ تدبیر کے باوجود تقدیر غالب آئی اور جو کچھ اللہ کی مشیت میں تھا وہ ہو کے رہا۔ فرعون کا یہ وحشیانہ حکم ایک طویل عرصہ سے بنی اسرائیل پر ڈھایا۔ بنی اسرائیل پر ڈھایا جارہا تھا۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ قرآن کی والدہ اس بچے کے فعل کے تصور سے سخت مغموم ہوگئیں۔ یکدم ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ڈال دیا کہ اس بچے کی پیدائش کی خبر اہل کاروں کے پاس پہنچنے سے پیشتر ہی اسے ایک تابوت میں بند کردے۔ پھر اس تابوت کو دریائے نیل کی موجوں کی سپرد کردیا جائے۔ اس طرح ایک تو بچہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہونے کے منظر کی اذیت سے بچ جائیں گے دوسرے ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس بچے کی زندگی کی کوئی اور صورت پیدا کردے۔