سورة البقرة - آیت 214

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے جبکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئے تھے۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ تاآنکہ رسول خود اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب [٢٨٣] آئے گی؟ (اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا) سن لو! اللہ کی مدد پہنچاہی چاہتی ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٨٣] مکی دور میں حکومت اور امن کی بشارت :۔ پھر جب کوئی نیا نبی مبعوث ہوتا ہے تو اسے کئی فرقوں میں بٹی ہوئی امت کو پھر سے ایک طریقہ پر لانے اور ایک امت بنانے پر بہت محنت صرف کرنا پڑتی ہے اور بہت سے مصائب اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔ انبیاء کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابتدءً انبیاء کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیونکہ باطل قوتیں جو مالی اور افرادی قوت کے لحاظ سے اس نئے نبی اور اس کے چند پیروؤں سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہیں ان کے مقابلہ پر اتر آتی ہیں اور کچل دینے سے بھی دریغ نہیں کرتیں اور یہ مصائب اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انبیاء اور ان کے متبعین بہ تقاضائے بشریت پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا شکوہ : چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سایہ میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر بیٹھے تھے تو سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں۔ جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ اپنے اس کام کو ضرور پورا کر کے رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک شخص صنعا سے سوار ہو کر حضرموت تک چلا جائے گا، اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں ” مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو۔“ پرامن زندگی کی بشارت :۔ اس حدیث میں مسلمانوں کے لیے کئی بشارتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کافروں کی ضرر رسانی اور ایذا دہی کا دور عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ پھر تمہاری اپنی حکومت قائم ہوگی جس میں ہر ایک کو پرامن زندگی بسر کرنا میسر آئے گی۔ کسی چور، ڈاکو، لٹیرے کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ دوسرے کے مال کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی سکے۔