سورة الكهف - آیت 45

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز ان کے لئے دنیا کی زندگی کی یہ مثال بیان کیجئے : جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہوگئی۔ پھر وہی نباتات ایسا بھس بن گئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر مکمل اختیار [٤١] رکھتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] زندگی کے مراحل دنیا کی زندگی کی مثال نباتات سے :۔ دنیا کی زندگی کی مثال نباتات سے اس لیے دی گئی ہے کہ اس کی سب کو فوراً سمجھ آجاتی ہے ورنہ اس دنیا کی ہر جاندار اور بے جان چیز جس میں نباتات بھی شامل ہے انھیں مراحل سے گزرتی ہے۔ زمین پر بارش برسنے سے نباتات اگ آتی ہے پھر وہ بڑی ہوتی اور لہلہاتی ہے جو بن پر آتی ہے تو ہر ایک کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے پھر عروج کے بعد اس میں زوال آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ زرد ہونا شروع ہوجاتی ہے اب اگر اس زرد فصل کو پہلے کی طرح پانی سے سیراب کیا بھی جائے تو دوبارہ اس میں کبھی بہار یا ہریاول نہیں آئے گی اس لیے کہ اس کے انحطاط یا زوال کا دور شروع ہوچکا ہے پھر وہ فصل کاٹ دی جاتی ہے اور اس کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ ہوا اس کے ریزوں اور ذروں کو اڑائے پھرتی ہے۔ انسان کا اپنا بھی یہی حال ہے پیدا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس پر جوانی آتی ہے، قوت آتی ہے۔ اس وقت وہ سب کو خوبصورت لگتا ہے اور سب چیزیں اسے حسین لگتی ہیں ہیں لیکن ایک مقررہ حد پر جاکر اس کا قد و قامت اور اس کی قوت سب کچھ رک جاتا ہے پھر بڑھاپے کا یعنی زوال و انحطاط کا وقت آتا ہے تو اب عمدہ سے عمدہ غذائیں کھائے لیکن اس میں نہ افزائش ہوگی اور نہ وہ اپنے زوال کو روک سکے گا کیونکہ ہر چیز کے طے شدہ اندازے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں ان سے کوئی چیز تجاوز نہیں کرسکتی۔ غرض یہ کہ اس دنیا کی ہر چیز زوال پذیر ہے جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی لہٰذا دنیا کے مال و دولت یا اس دنیا کی زندگی پر کبھی گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔