سورة الكهف - آیت 19

وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اسی طرح [١٨] ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ وہ آپس میں کچھ سوال جواب کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا: ’’بھلا تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟‘‘ ان میں سے کچھ نوجوانوں نے کہا : ’’یہی کوئی ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘ اور بعض نے کہا : یہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے۔ اب یوں کرو کہ اپنا چاندی کا روپیہ (سکہ) دے کر کسی ایک کو شہر بھیجو کہ وہ دیکھے کہ صاف سھترا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ آپ کے لئے کچھ کھانے کو لائے اور اسے نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو آپ لوگوں کا پتہ چل جائے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] طویل نیند کے بعد بیداری، کھانے کی فکر اور ایک آدمی کو شہر بھیجنا :۔ جس طرح ہم نے مشکل وقت میں ان پر ایک طویل عرصہ کے لیے نیند طاری کی تھی۔ اسی طرح جب حالات ان کے حق میں ساز گار ہوئے تو انھیں جگا بھی دیا جاگنے پر سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہن میں آیا یہ تھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے رہے انہوں نے اس عرصہ کو عام حالات پر قیاس کیا کہ انسان خواہ کتنا ہی تھکا ماندہ ہو ایک دن سے زیادہ سو نہیں سکتا اور عام حالات میں یہی کوئی آٹھ نو گھنٹے سو لیتا ہے۔ لہٰذا کسی نے کہا کہ ہم دن بھر سوئے رہے ہیں اور کسی نے کہا اتنا کب سوئے ہیں بس کوئی چند گھنٹے ہی سوئے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آخر اس بحث کا کوئی فائدہ بھی ہے ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم اس مدت کی صحیح تعیین کرسکیں یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک ستا رہی ہے لہٰذا کھانا لانے کے لیے کسی کو شہربھیجو جو کسی صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنے والے دکاندار سے کھانا لائے اور جو شخص بھی شہر جائے وہ بھیس بدل کر جائے اور اس سکہ کے بدلے جو کچھ بھی مل سکے وہ لے آئے۔ دکاندار سے کچھ جھگڑا نہ کرے نہ کسی دوسرے آدمی سے کوئی بات یا جھگڑا کرے اور اگر اس نے ایسا نرم رویہ اختیار نہ کیا تو ممکن ہے کہ لوگوں کو ہمارا پتہ چل جائے تو وہ ہمارے لیے کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیں گے اور پہلے کی طرح ہمیں بت پرستی پر مجبور کردیں گے یا ہماری جان کے لاگو بن جائیں گے۔