سورة الإسراء - آیت 93

أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

یا آپ کے لئے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے تاآنکہ آپ ہم پر کتاب [١١٠] نازل کریں جس کو ہم پڑھ لیں۔ آپ ان سے کہئے : پاک ہے میرا پروردگار! میں تو محض ایک انسان [١١١] ہوں پیغام پہنچانے والا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٠] وہ حسی معجزے جن کا کفار مکہ مطالبہ کیا کرتے تھے :۔ ان آیات میں کفار مکہ کے ان مطالبات کو یک جابیان کیا جارہا ہے جو وہ وقتاً فوقتاً نبوت کی دلیل پر حسی معجزہ کی صورت میں مطالبہ کرتے رہے تھے۔ وہ اس قسم کے مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہیں تھے کیونکہ کئی معجزات وہ ایسے دیکھ چکے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر واضح دلائل تھے مثلاً بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ قرآن جیسا کلام نہ پیش کرسکے تھے۔ چاند پھٹنے کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ واقعہ اسراء کے سلسلہ میں بیت المقدس کی ساخت پر وہ سوال و جواب کرچکے تھے۔ یہ سب باتیں ان کے قلبی اطمینان کے لیے کافی تھیں۔ مگر ''خوئے بدرا بہا نہ بسیار'' کے مصداق وہ نئے سے نئے مطالبے کرتے ہی رہتے تھے جن میں سے چند ایک یہ تھے کہ آپ یہاں پانی کے چشمے بہادیں تاکہ ہمارے لیے پانی کی قلت دور ہو نیز یہاں سے پہاڑوں کو دور ہٹادیں تاکہ ہمیں رہنے کو کچھ میدان میسر آئے اور اس میں کھیتی اور کھجوریں اور انگور کے باغ پیدا ہوں یا جیسے ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔ جس سے نہ ہم رہیں اور نہ تم اور یہ روز روز کی تکرار ختم ہوجائے۔ یا جس فرشتے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ مجھ پر نازل ہوتا ہے کم از کم ہم اسے ہی دیکھ لیں یا اگر تم ہمارا بھلا نہ کرسکو تو تمہارا اپنا ہی گھر سونے کا یا سنہرا بن جائے یا ہمارے سامنے تم آسمان کی طرف چڑھو اور جب اترو تو تمہارے ہاتھوں میں ہماری طرف ایک کتاب ہونا چاہیے۔ جس میں ہمیں خطاب کیا گیا ہو کہ ”یہ واقعی نبی ہے اور اس پر ایمان لے آؤ“تو تب ہی ہم تمہاری نبوت پر ایمان لاسکتے ہیں۔ [١١١] مطالبات کا جواب :۔ کفار مکہ کے ان سب اوٹ پٹانگ قسم کے سب مطالبات کا اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سے جملہ میں جواب دے دیا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے کہہ دیں کہ میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ میں خدائی اختیارات کا مالک اور قادر مطلق ہوں ایسے سب کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہیں۔ اگر میں نے تمہارے سامنے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا ہوتا تو تم مجھ سے ایسے مطالبے پیش کرنے میں حق بجانب تھے مگر میں تو صرف یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول اور پیغامبر ضرور بنایا ہے۔ اگر تم نے میرا امتحان لینا ہے تو اس پیغام کو جانچو، میری صداقت کو پرکھو، میری سابقہ زندگی تمہارے سامنے ہے، مجھ میں جو عیب نظر آتا ہے اس کی نشان دہی کرو۔ آخر تمہارے ان مطالبات کا میرے دعٰوئے رسالت سے کیا تعلق ہے؟