سورة الإسراء - آیت 44

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب اس کی تسبیح [٥٤] کرتے ہیں بلکہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ وہ بڑا برد بار اور معاف کرنے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٤] سَبَحَ کا لغوی مفہوم :۔ سَبَحَ کے لغوی معنی کسی چیز کا ہوا یا پانی میں تیرنا اور تیزی سے گزر جانا ہے (مفردات القرآن) پھر اس لفظ کا استعمال کسی کام کو سرعت کے ساتھ انجام دینے پر بھی ہونے لگا جیسے ارشاد باری ہے ﴿اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ﴾ (۷:۷۲)(دن کے وقت تو آپ کو اور بہت سے شغل ہوتے ہیں) اور سبحان کا لفظ سبح کا مصدر ہے جیسے غفر سے غفران ہے اور اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کائنات میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے فضا میں نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لغزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ ہی تصادم یا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر، تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بے تدبیری اور عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے اور کائنات کی جملہ اشیاء کا یہ عمل، جس کے تحت وہ مدبر ہستی کے مجوزہ قوانین کے تحت سرگرم عمل ہیں، ان کی تسبیح، فرمانبرداری یا عبادت کہلاتا ہے گویا کائنات کی جملہ اشیاء زبان حال یا اپنے عمل سے اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ان کا انتظام کرنے والی ہستی ہر طرح کے عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ اور وہ صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ یہ تو ہے ہر چیز کی عملی تسبیح۔ کائنات کی ہر چیز کی تسبیح کا مفہوم :۔ اور قولی یا زبانی تسبیح کی صورت یہ ہے کہ انسانوں، جنوں یا فرشتوں کی تسبیح زندگی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے بالا و برتر، موثر اور قابل فہم ہوتی ہے۔ حیوانات کی اس سے کم اور جمادات کی اس سے کم، جن و انس کی تسبیح کی صورت چونکہ اختیاری ہے لہٰذا گاہے گاہے ہوتی ہے جبکہ باقی تمام اشیاء ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتی ہیں اور جب کوئی چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تو اس پر اللہ کی رحمت کا نزول بھی ہوتا ہے۔ جس مخلوق کی تسبیح جتنی واضح ہوگی، اتنا ہی زیادہ رحمت کا نزول ہوگا اور اس توجیہہ کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک قبر پر ایک ٹہنی کی دوشاخیں بنا کر انھیں قبر میں گاڑ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوجائیں امید ہے کہ ان پر عذاب کم رہے (بخاری، کتاب الوضوء ، باب من الکبائر، ان لایستتر من بولہ) یعنی ہری ٹہنی کی تسبیح سوکھی ٹہنی سے زیادہ موثر اور قابل فہم ہوتی ہے اسی لحاظ سے اس پر رحمت کا نزول سوکھی ٹہنی سے زیادہ ہوگا اور اس رحمت کے نزول کا مردہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ عذاب قبر میں تخفیف ہوگی۔