فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا
پھر جب ہمارا پہلا وعدہ آگیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے بڑے جنگ جو بندے لاکھڑے کئے جو تمہارے شہروں کے اندر گھس (کر دور تک پھیل) گئے۔ یہ (اللہ کا) وعدہ تھا جسے [٦] پورا ہونا ہی تھا۔
[٦] یہود کی پہلی بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے آنے والے بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوگئے تو انھیں حکم یہ تھا کہ فلسطین کا سارا علاقہ فتح کریں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے اجتناب کریں۔ مگر ایک تو انہوں نے سارے علاقہ کو فتح نہ کیا اور جو کرچکے تھے اس پر ہی قناعت کرلی۔ دوسرے وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا ہوگئے اور مفتوحہ علاقہ کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ہر قبیلہ نے الگ الگ حکومت قائم کرلی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہوسکا۔ نیز سابقہ اقوام کی اخلاقی اور اعتقادی بیماریاں یعنی شرک، بے حیائی اور بدکاری وغیرہ ان میں بھی پھیلنے لگیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو یکسر بھول گئے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بہت حد تک اصلاح احوال کی اور ایک دفعہ پھر سے حکومت بنی اسرائیل کو مستحکم بنا دیا۔ مگر جلد ہی بنی اسرائیل پھر سے انھیں بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوگئے۔ بت پرستی اور بے حیائی عام ہوگئی اور حکومت بھی متزلزل ہوگئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر بابل کے بادشاہ بخت نصر نے دولت یہودیہ کو مسخر کیا اور بادشاہ کو قید کرلیا۔ اس دوران سیدنا یرمیاہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف سازش اور بغاوت کرکے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر ٥٨٧ ق م میں بخت نصر نے ایک زور دار حملہ کرکے سلطنت یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کردیا۔ بہت سے قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گیا اور جو لوگ بچ رہے وہ ہمسایہ قوموں کے ہاتھ بری طرح ذلیل ہو کر رہے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا۔ جو قیدی وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا انھیں میں سے ایک عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ ان قیدیوں کو سات سال بعد بخت نصر نے چھوڑ دیا۔ آپ جب واپس اپنے وطن آرہے تھے تو ایک اجڑی ہوئی اور برباد شدہ بستی دیکھی تو کہنے لگے ’’پروردگار! تو اس بستی کو کیسے دوبارہ زندہ یا آباد کرے گا ؟‘‘ یہ بستی بھی دراصل بخت نصر کے حملے میں ہی تباہ ہوئی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسی مقام پر سیدنا عزیر علیہ السلام کو موت دے دی۔ اور یہ واقعہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ کون سی کتاب تھی جس میں بنی اسرائیل کے دو بار سرکشی کرنے اور سزا پانے کی انھیں اطلاع دی گئی تھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد تورات ہی لی ہے مگر اس وقت تورات کے نام سے جو کتاب اہل کتاب کے پاس ہے اور جسے وہ عہد نامہ عتیق کہتے ہیں۔ ایسی صراحت کے ساتھ یہ مضمون مذکور نہیں جیسی صراحت سے قرآن میں مذکور ہے البتہ اس کے بعض فقروں سے ایسے اشارے ضرور مل جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی تورات میں یہ مضمون ضرور موجود ہوگا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جو جملہ کائنات کی قضا و قدر کی کتاب ہے اور یہ دونوں توجیہات ہی قرین قیاس ہیں۔