سورة النحل - آیت 125

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی)! آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت [١٢٨] اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٨] تبلیغ کے لئے داعی کو تین ہدایات :۔ یہاں سے خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اور اس آیت میں تبلیغ دین کے متعلق تین ہدایات دی گئی ہیں۔ پہلی ہدایت حکمت ہے ''حکمت'' کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو موقع محل دیکھ کر دعوت دی جائے۔ یعنی اس وقت دعوت دی جائے جب مخاطب کے دل میں سننے کی خواہش ہو اور وہ سننے کو تیار ہو اور دوسرے جو بات کہی جائے وہ مخاطب کے عقل و فہم کو ملحوظ رکھ کر کی جائے۔ عمدہ نصیحت سے مراد یہ ہے کہ جو بات آپ کہیں میٹھے اور دلنشیں انداز میں کہیں جو مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ عقلی دلیل کے ساتھ ترغیب و ترہیب اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائیں آپ کے دل میں اس کے لیے تڑپ ہونی چاہیے۔ حتیٰ کہ مخاطب یہ سمجھے کہ آپ فی الواقع اس کے ہمدرد ہیں۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آپ مخاطب پر اپنی علمی برتری جتلانے اور اسے مرعوب کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپس میں دلائل سے بات کرنے کی نوبت آئے تو اس کی بات غور سے سنیں اور اپنی دلیل بھی شائستہ زبان میں پیش کریں اور اس کا مقصد افہام وتفہیم ہو۔ ایک دوسرے کو مات کرنا مقصود نہ ہو۔ اور اگر کج بحثی تک نوبت پہنچ جائے تو پھر بحث کو بند کردیں۔ کیونکہ اس صورت میں عین ممکن ہے مخاطب ضد میں آکر پہلے سے بھی زیادہ گمراہی میں مبتلا ہوجائے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تین ہدایات، حکمت، موعظۃ الحسنہ اور جدال بالاحسن فرمائی ہیں۔ تو یہ سب الگ الگ تین قسم کے لوگوں کے لیے ہیں۔ یعنی مخالفین میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو اہل عقل و خرد ہوتے ہیں جو صرف معقول دلائل سے ہی قائل ہوسکتے ہیں۔ انھیں آپ حکیمانہ انداز میں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسرے وہ لوگ جو زیادہ ذہین تو نہیں ہوتے مگر عقل سلیم رکھتے ہیں ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہوتے۔ انھیں پند و نصیحت اور انذار اور تبشیرسے سمجھائیے۔ یہی چیزان کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوگی۔ تیسرے وہ لوگ جو کج بحث، ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ ان سے آپ کو دلیل بازی سے کام لینا ہوگا۔ الزامی جوابات اور مناظرہ کی صورت بھی پیش آسکتی ہے لیکن ان سے بھی احسن طریقہ سے دلیل بازی کیجئے۔ انھیں صرف حقائق سے آگاہ کرنا آپ کے ذمہ ہے۔ منوا کے چھوڑنا آپ کے ذمہ نہیں۔ اور جب آپ دیکھیں کہ مخاطب کچھ سمجھنے کی بجائے ضد بازی پر اتر آیا ہے تو پھر اس سے اعراض کیجئے۔ اور ایسے لوگوں پر اپنا وقت اور محنت صرف نہ کیجئے۔ اس کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ فرمائیے جو حق کے متلاشی ہوں۔