وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑنے لگتا تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق باقی نہ رہ جاتی [٥٨] لیکن وہ ایک معین عرصہ تک ڈھیل دیئے جاتا ہے پھر جب وہ مدت آجاتی ہے تو (اللہ کا عذاب ان سے) گھڑی بھر کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا
[٥٨] ظالموں اور مشرکوں کو نیست ونابود کرنا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے :۔ عذاب کی جو بھی صورت ہو وہ بالآخر تمام مخلوق کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک معمولی سی مثال یہ لیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ بارش برسانا بند کردے۔ تو انسان کو پانی پینے کو ملے نہ حیوانات کو، نہ سبزی اور گھاس وغیرہ اگیں اور نہ پھلدار درخت اور چند ہی دنوں میں تمام مخلوق بھوک سے مر جائے اور دنیا ویران اور سنسان بن جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جتنے مشرک اور ظالم قسم کے انسان ہیں صرف انہی پر اللہ کا قہر نازل ہو اور باقی صرف نیک لوگ رہ جائیں۔ زمین میں ایسی آبادی بھی اللہ کی مشیئت نہیں اور ایسی مخلوق جو نیک ہی ہوں وہ تو پہلے سے ہی فرشتوں کی صورت میں موجود تھی اللہ نے تو اس دنیا کو امتحان گاہ بنانا اور اسے آباد رکھنا ہے اور اس کی واحد صورت یہی ہے کہ اس دنیا میں نیک و بد دونوں قسم کے لوگ موجود رہیں۔ معرکہ حق و باطل ہوتا رہے اور ان کی آزمائش کا عمل جاری رہے۔ لہٰذا مجرموں کو فوری طور پر سزا دے کر ہلاک کردینا اللہ کے دستور اور حکمت کے خلاف ہے۔