وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ
ان لوگوں نے اللہ کے لئے بیٹیاں [٥٤] تجویز کیں حالانکہ وہ ایسی باتوں سے پاک ہے اور ان کے لئے وہ کچھ ہے جو یہ [٥٥] خود چاہیں (یعنی بیٹے)
[٥٤] اہل عرب کی دیویاں ان کے مقام اور ان کے پرستار :۔ ہندی، یونانی اور مصری تہذیبوں کی طرح مشرکین عرب کے بھی دیوتا کم اور دیویاں زیادہ تھیں اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، اسی طرح وہ فرشتوں کو بھی اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کی تین مشہور دیویاں، لات، عزیٰ اور منات تھیں۔ لات الٰہ کی مونث ہے۔ عزیٰ عزیز کی اور منات، منان کی۔ لات کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنو ثقیف اس کے پرستار تھے۔ عزیٰ قریش مکہ کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان یا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں مقام حراص پر واقع تھا۔ چنانچہ ابو سفیان سپہ سالار قریش نے احد کے میدان میں جنگ میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس دیوی کا نعرہ لگایا اور کہا تھا لَنَا عُزّٰی وَلَاعُزّٰی لَکُم اور منات کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنو خزاعہ، اوس اور خزرج اس دیوی کے پرستار تھے۔ نیز اس کا باقاعدہ حج اور طواف کیا جاتا تھا۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہوجاتے تو وہیں سے منات کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہونے لگتیں اور جو لوگ اس دوسرے حج کی نیت کرلیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے۔ گویا مشرکین عرب دوہرا ظلم ڈھاتے تھے۔ ایک تو ان کو اللہ کا شریک بنانے کا دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں وہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ [ ٥٥] یعنی ان کے اللہ کے بارے میں یہ مشرکانہ عقائد اس قدر گھٹیا اور گستاخانہ قسم کے تھے کہ خود تو اپنے لیے بیٹیوں کا وجود بھی باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ محض اس وجہ سے کہ کوئی ان کا داماد بنے گا اور یہ خود اس کے سسر ہوں گے لیکن اللہ کے معاملہ میں دوہرا ظلم ڈھاتے۔ ایک تو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے اور دوسرے اولاد بھی بیٹیاں۔ گویا اچھی چیز تو اپنے لیے پسند کرتے تھے اور ناقص اللہ کے لیے۔