وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ
نیز جو رزق ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے ایسے (شریکوں) کا حصہ مقرر کرتے ہیں جن کے متعلق انہیں [٥٣] علم نہیں۔ اللہ کی قسم! جو کچھ تم اللہ پر افترا کرتے ہو اس کی تم سے ضرور باز پرس ہوگی
[٥٣] یعنی یہ مشرک اپنے صدقات و خیرات میں اللہ کا شریک اور حصہ دار ان چیزوں کو بناتے ہیں جو بے جان بت ہیں یا قبروں میں پڑے ہوئے ہیں جو نہ سن سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ جواب دے سکتے ہیں۔ انھیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور نہ ہی وہ اپنی جگہ سے حرکت کرسکتے ہیں اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کو اپنے ان خود ساختہ معبودوں کے متعلق کسی مستند ذریعہ علم سے یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے واقعی ان معبودوں کو اپنا شریک بنا رکھا ہے اور نظام کائنات کے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے کچھ علاقے انھیں سونپ رکھے ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ انھیں معبود بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات میں تصرف کرسکتے اور دوسروں کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پھر چونکہ اپنے ان عقائد کو مذہبی عقیدہ سمجھتے ہوئے ان خرافات کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لہٰذا اللہ ان سے ٹھیک طرح نمٹ لے گا اور ان کے اس جرم کی قرار واقعی سزا دے گا۔