فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور جو وہ (پتھر کے مکان وغیرہ) بناتے تھے ان کے کسی کام [٤٥] نہ آسکے
[٤٥] قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں :۔ ان پر جو عذاب الٰہی نازل ہوا وہ ایک زبردست قسم کی دہشت ناک آواز تھی ان کے مکان جو باقی ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات سے مامون تھے اس عذاب کے لیے کچھ بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکے۔ اللہ نے ان پر عذاب ہی ایسا بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ اور اس کے مقابلہ میں ان کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہ ہوسکتی تھی۔ چنانچہ وہ اپنے گھروں میں ہی مرگئے اور وہیں گلتے سڑتے رہے۔ ان کا علاقہ اس راستہ پر پڑتا ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے اور ان کے بہت سے آثار طویل مدت تک دوسروں کے لیے باعث عبرت بنے رہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سفر تبوک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ ”ان کے کنوئیں سے نہ پانی پیئیں اور نہ ڈول بھریں“ صحابہ نے عرض کیا کہ ’’ہم نے تو اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور اسے بھر بھی لیا ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آٹا پھینک دو اور پانی بہا دو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’اس کنوئیں سے پانی پلاؤ جس سے (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ اور ان ظالموں کے گھروں میں داخل نہ ہو بجز اس صورت کے کہ تم رو رہے ہو اور اگر رونا نہ آئے تو وہاں سے مت گزرو۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا سا عذاب تم پر بھی نازل ہو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء ، باب قولہ تعالیٰ والی ثمود اخاہم صالحا۔ نیز کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلٰوۃ فی مواضع الخسف)