سورة الحجر - آیت 26

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہم نے انسان کو گلے سڑے گارے سے خشک شدہ ٹن سے [١٧] بجنے والی مٹی سے پیدا کیا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧ ١] آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی :۔ مٹی کے لیے عربی زبان میں عام لفظ تراب ہے جو ہر طرح کی مٹی پر بولا جاسکتا ہے۔ جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق ایک مقام پر فرمایا : ﴿خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ﴾(۳تا۵) تاہم تراب کا لفظ عموماً خشک مٹی کے لیے بولا جاتا ہے اور انسان کے پتلے کی ساخت میں مٹی کی جن اقسام کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ طین یعنی گیلی مٹی یا وہ خشک مٹی جس میں پانی ملایا گیا ہو طین لازب چپک دار گیلی مٹی ( چکنی مٹی) اس کے بعد اسی مٹی کو حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ کی شکل دی گئی یعنی ایسی مٹی یا گارا جو گل سڑ کر سیاہ رنگ کی ہوگئی ہو خمیر اٹھ رہا ہو اور بو پیدا ہوگئی ہو۔ ایسی ہی مٹی سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا گیا۔ پھر اسے حرارت یا آگ میں اس قدر تپایا گیا کہ وہ کھنکھنانے سے کھن کھن کی آواز پیدا کرتا ایسی مٹی کو صَلْصَالٍ اور صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ کا نام دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہی تھا۔