وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ
ان لوگوں نے (حق کے خلاف) خوب چالیں چلیں۔ حالانکہ ان کی چالوں کا توڑ اللہ کے پاس موجود تھا۔ اگرچہ ان کی چالیں ایسی خطرناک تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل [٤٦] جائیں
[٤٦] کفار مکہ کی زبردست چال کیا تھی؟ :۔ یہ الفاظ بطور محاورہ استعمال ہوئے ہیں یعنی ان کی چالیں اس قدر یقینی اور تیر بہدف تھیں کہ ان کے خطا ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ چالیں کیا تھیں؟ اس کا ذکر قرآن کی دوسری آیات میں موجود ہے کہ یا تو اس پیغمبر کو جلا وطن کردیا جائے یا قید کردیا جائے یا قتل کردیا جائے۔ پھر اتقاق اس بات پر ہوا تھا کہ اس کے گھر کا محاصرہ کیا جائے اور یہ محاصرین ہر قبیلے کے ایک ایک فرد پر مشتمل ہوں گے۔ جو سب مل کر حملہ کرکے اس کو قتل کریں گے اور اس طرح پیغمبر اسلام اور اسلام دونوں کا مکمل طور پر قلع قمع ہوجائے گا وغیرذٰلِکَ یہ مطلب اس صورت میں ہے۔ جب ﴿وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ ﴾ میں ان کو شرطیہ سمجھا جائے اور بعض مفسرین نے یہاں ان کو نافیہ سمجھا ہے اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ ان کی چالیں کوئی ایسی تو نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ ٹل جاتے۔ یعنی اللہ کی چال کے مقابلہ میں انکی چالوں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اللہ کی تدبیر ہی ایسی مستحکم ہوتی ہے کہ اس سے پہاڑ بھی ٹل جاتے ہیں۔ ناممکن باتیں بھی ممکن بن جاتی ہیں۔ اور بعض مفسرین ان الفاظ کو صرف قریش مکہ تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ان الفاظ سے تمام سرکش اقوام مراد لیتے ہیں جنہوں نے نہایت مضبوط اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر رکھی تھیں کہ اللہ کا عذاب آئے بھی تو وہ محفوظ رہ سکیں۔ پہاڑ ٹل جائیں تو ٹل جائیں مگر ان کی تدبیریں ناکام نہ ہوں۔ مگر جب عذاب آیا تو تباہ و برباد ہوگئے پھر تم ان سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟