سورة ابراھیم - آیت 32

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس (پانی سے) تمہارے کھانے کو پھل پیدا کئے نیز تمہارے [٣٧] لئے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے سمندر میں رواں ہو اور دریاؤں کو بھی تمہارے لئے مسخر کردیا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٧] اللہ کی نعمتوں کی ناشکری :۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر ان کی زندگی ممکن ہی نہ تھی۔ مثلاً زمین اور آسمان پیدا کیے۔ زمین اس کائنات میں بنی نوع انسان کا مسکن ہے پھر زمین و آسمان میں ہواؤں اور بادلوں کا نظام جاری کیا تاکہ اس زمین میں بارش برسے اور انسانوں اور دوسرے جانوروں کو خوراک مہیا ہوسکے اور وہ زندہ رہ سکیں۔ اگر بارش کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو انسان کو نہ کچھ پینے کو ملے اور نہ کھانے کو۔ پھر دودھ اور سواری کے لیے چوپائے بنائے اور بحری سفر کے لئے کشتیاں۔ اگر کشتی کی ساخت میں چند مخصوص طبعی قوانین سے مدد نہ لی جاتی تو انسان کبھی بحری سفر کر ہی نہ سکتا۔ پانی بھی طبعی قوانین کا پابند ہے جس کی وجہ سے انسان دریاؤں سے بڑی بڑی نہریں پھر چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر اپنے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ پھر انسان کو کام کاج کے لیے روشنی کی اور کھیتوں کے پکنے کے لیے حرارت کی ضرورت تھی اس کے لیے سورج کو پیدا کیا۔ رات کو چاند روشنی مہیا کرتا ہے اور پھلوں میں چاند جب زائد النور ہوتا ہے رس تیزی سے بڑھنے لگتا ہے پھر سورج سے دن اور رات پیدا ہوتے ہیں۔ دن کام کاج کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی۔ اور ان تمام چیزوں کو اس طرح انسان کی خدمت پر لگا دیا کہ ان کے کام میں ذرہ بھر تاخیر، کمی یا کوتاہی واقع نہیں ہوتی۔ غرض انسانی زندگی کی جتنی بھی ضروریات اور مطلوبہ چیزیں تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے اسے فراہم کردیں پھر عقل و شعور بخش کر اسے تمام مخلوقات سے افضل و اشرف بنا دیا۔ اور اگر نعمتوں کی جزئیات پر نظر ڈالی جائے تو انسان انھیں شمار کرنے سے عاجز ہے۔ پھر انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کا کیا جواب دیا ؟ یہ کہ بعض لوگوں نے تو اس کی ذات ہی سے انکار کردیا اور جنہوں نے مانا ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی رہی جو نعمتیں تو اللہ کی استعمال کرتے رہے اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے دوسروں کو پکارتے رہے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی بے انصافی اور احسان ناشناسی کی بات ہوسکتی ہے؟