سورة ابراھیم - آیت 13

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آخر کافروں نے اپنے رسول سے کہہ دیا کہ : ہم تمہیں اپنے ملک [١٧] سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہمارے دین میں آنا ہوگا: تب ان کے پروردگار نے ان کی طرف [١٨] وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو یقیناً ہلاک کردیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] کافروں کا جواب یا دین میں واپس آؤ یا ہم تمہیں نکال دیں گے :۔ مخالفین حق جب حق کے دلائل کے سامنے عاجز آجاتے ہیں تو ان کے لیے آخری حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی اور اس کے پیروکاروں کو یہ دھمکی دے دیتے ہیں کہ یا تو ہماری بات مان لو اور ہمارے دین میں واپس آجاؤ یا پھر ہم تمہیں یہاں سے جلاوطن کردیں گے اور ان کا یہ اقدام دراصل ان کی ذہنی شکست کا اعتراف ہوتا ہے اور ایسی دھمکی ہر نبی کو دی جاتی رہی ہے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ انھیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے جب یہ واقعہ سنا تو کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا۔ پھر ساتھ ہی کہنے لگا : ’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں یہاں سے نکال دے گی اور میں اس وقت تمہاری کچھ مدد کرسکتا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا : ’’کیا میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟‘‘ اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے پوچھی کہ پوری قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین سمجھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت و تکریم کی نگاہوں سے دیکھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے محبوب تھے۔ ورقہ بن نوفل نے کہا : ’’ہاں! کیونکہ جس نبی نے بھی ایسی دعوت پیش کی اس کی قوم اسے نکالتی چلی آئی ہے‘‘ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ ایک وقت آیا جب آپ کی قوم نے بھی آپ کو وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ [ ١٨] کافروں کی تدبیریں انھیں پر الٹ پڑتی ہیں :۔ جب حق و باطل کا معرکہ اس مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے کہ مخالفین حق اپنے نبی کو وطن سے نکالنے یا اس کی جان ہی لینے کے درپے ہوجاتے ہیں تو اس وقت سے ہی مخالفین کی تباہی کے اسباب کا آغاز ہوجاتا ہے اور پیغمبروں کو اس کی اطلاع کردی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جس مقام سے یہ تمہیں نکالنے کے درپے ہیں۔ ہم ان کو دفع کرنے کے بعد تمہیں اسی مقام پر لا کر آباد کریں گے اور قبضہ و اختیار عطا کریں گے یہ آیات اسی دور کی نازل شدہ ہیں جب قریش مکہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے یا قتل کرنے کی تدبیریں سوچ رہے تھے اور یہ آیات دراصل ان کے خلاف ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لیکن وہ تو بہرصورت اپنے پیغمبر کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ لہٰذا اس طرف ان کا دھیان جاتا ہی نہ تھا۔ بالآخر ان کا وہی انجام ہوا جو اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ فتح مکہ کے بعد اسی جگہ کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا اور مخالفین حق میں سے اکثر اسلام لے آئے اور جو نہ لائے وہ اس جگہ سے از خود نکل کھڑے ہوئے۔