وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ
اور اسی کے ہاں مجھے جانا ہے ( اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں حَکَمَ بنا کر [٤٨] اتارا ہے۔ اب اگر اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے، آپ نے ان لوگوں کے خواہشات کی پیروی [٤٩] کی تو اللہ کے مقابلہ میں آپ کا نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ (اس کی گرفت سے) بچانے والا
[٤٨] قرآن سابقہ کتابوں کے لئے حَکَمَ ہے :۔ یعنی جس طرح ہم نے سابقہ انبیاء کی کتابوں کو ان کی قومی زبان میں نازل کیا تھا۔ اسی طرح محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے یہ قرآن ان کی قومی زبان یعنی عربی میں نازل کیا ہے اور اسے حکم بنا کر نازل کیا ہے۔ یعنی یہ سابقہ الہامی کتابوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بیان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں کہاں کہاں تحریف کی، کون سے احکام و آیات کو چھپاتے رہے اور اپنے دین میں از خود کون کون سے اضافے کرلیے۔ [٤٩] العلم سے کیا مراد ہے ؟:۔ اس آیت میں خطاب عام مسلمانوں کے لیے ہے۔ مگر بطور تاکید مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے اور علم سے مراد علم وحی ہے یعنی منزل من اللہ احکام آجانے کے بعد نہ کسی کے قول کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ بات جان لینے کے بعد کہ ''یہ بات واقعی منزل من اللہ'' ہے کوئی ایسا کام کرے گا تو اس کو اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہ سکے گا۔ واضح رہے کہ کسی حدیث کی صحت معلوم ہوجانے کے بعد اتباع کے لحاظ سے کتاب اور سنت دونوں ایک ہی درجہ پر ہیں اور قرون اولیٰ میں علم حدیث کے لیے بھی العلم کا لفظ عام استعمال ہوتا رہا ہے اور جو لوگ تقلید شخصی کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے اس آیت میں عبرت ہے۔ کیونکہ کسی بھی امام کی فقہ پر العلم کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں تقلید شخصی ہی وہ قباحت ہے جو امت مسلمہ میں تفرقہ بازی کا ایک بڑا سبب بنی ہوئی ہے اور جب تک امت تقلیدشخصی کے وجوب کے دعویٰ سے دستبردار نہیں ہوگی اس میں اتحاد کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور تفرقہ بازی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ اپنے اختلاف میں صرف کتاب و سنت ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔