وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ
اور جن لوگوں کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب دی تھی وہ اس کتاب سے خوش [٤٦] ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور ان کے گروہوں میں کچھ ایسے ہیں جو اس قرآن کے بعض (حکموں) کا انکار کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے'': مجھے تو بس یہی حکم ہوا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت [٤٧] کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں
[٤٦] یعنی یہود و نصاریٰ اس کتاب یعنی قرآن سے اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ یہ ان کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کے انبیاء کی تعظیم و تکریم سکھلاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو سارے اہل کتاب قرآن سے خوش ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ منصف مزاج ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور جن باتوں سے وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ وہی باتیں ہیں جن میں انہوں نے تحریف کر ڈالی تھی۔ کتاب کے کچھ احکام چھپا جاتے تھے اور کچھ باتیں انہوں نے خود ہی تصنیف کرکے اللہ سے منسوب کردی تھیں۔ قرآن نے ایسی تمام باتوں سے پردہ اٹھا دیا اور جو حقیقت تھی اسے واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے قرآن کے بعض حصوں کا انکار کیا پھر بعد میں پورے قرآن ہی سے انکار کردیا۔ [ ٤٧] اہل کتاب کی تحریف لفظی ومعنوی اور شرک کی راہ کھولنا :۔ اہل کتاب نے جن باتوں میں تحریف کی تھی، خواہ یہ تحریف لفظی تھی یا معنوی تھی، ان میں سے سب سے بری بات یہ تھی کہ انہوں نے شرک کی راہیں اختیار کرلی تھیں۔ یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔ نیز اللہ کی بہت سی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے لیا تھا اور نصاریٰ نے پہلے تو خدائی کے تین حصے کئے اور کہا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ بعد میں سیدہ مریم کو الوہیت کا درجہ دے ڈالا اور یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں تحریف لفظی یا معنوی کا نتیجہ تھا۔ پھر وہ اپنے ان اعتقادات کی صحت پر مصر بھی تھے اور نجران کے عیسائی تو آپ سے مباحثہ کرنے کے لیے مدینہ بھی آئے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کو جواب دیتے ہوئے اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان سے صاف طور پر کہہ دیجئے کہ میں تمہاری اس قسم کی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ میں اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ اسی بات کی تم سب کو دعوت دیتا ہوں اور تمہارے انبیاء نے خود بھی اسی بات کی طرف دعوت دی تھی۔