سورة الرعد - آیت 14

لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اسی کو پکارنا برحق [٢١] ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ انھیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف اپنے ہاتھ اس لئے پھیلائے کہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ پانی کبھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ کافروں کی پکار بھی ایسے ہی (راہ میں) گم ہوجاتی ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢١] من دون اللہ کو پکارنے کی مثال :۔ اس لیے کہ وہ پکار سنتا ہے پھر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ رہے مشرکین جو دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی دیکھ کر ہاتھ پھیلائے ہوئے اسے پکارے کہ آؤ ذرا آکر میری پیاس بجھاؤ۔ ظاہر ہے کہ پانی نہ تو کسی کی پکار سن سکتا ہے نہ ہی پیاسے کے پاس آنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا پیاسے کی ایسی پکار ایک لغو اور بے کار فعل ہوتا ہے۔ اسی طرح معبودان باطل کو ہزار بار بھی پکارا جائے تو وہ کچھ سن ہی نہیں سکتے، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو ایسے بے بس اور مجبور محض ہیں کہ وہ دعا کو قبول کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے۔ اب وہ خود ہی سوچ لیں کہ انھیں پکارنے کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔